Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صافر آئل ٹینکر، ’بچاؤ کے آپریشن کے قریب پہنچ گئے ہیں‘

یمن کے ساحل پر 2015 سے کھڑا جہاز شکست و ریخت سے دوچار ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ یمن کے مغربی ساحل پر کئی برسوں لنگرانداز گلتے سڑتے تیل کے جہاز سے بچاؤ کے آپریشن کے اتنا قریب پہنچ گیا ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق بیان میں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین کی جنگ کے باعث یہ مشکل اور مہنگا ہو گیا ہے کیونکہ متبادل آئل ٹینکر کا انتظام ایک چیلنج ہے اور اسی کی وجہ سے آپریشن تاخیر کا شکار ہوتا آیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق کا کہنا ہے کہ ’عطیہ دہندگان نے تیل کے اخراج کو روکنے کے منصوبے کے لیے آٹھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد کے عطیات دینے کا وعدہ کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’نجی سیکٹر سے مزید فنڈز کی جلد دستیابی بھی موقع ہے۔‘
یمن کے ساحل پر موجود صافر نامی بحری آئل ٹینکر میں 11 لاکھ 40 ہزار بیرل تیل موجود ہے اور اس کو ساحل پر سات سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔
اس دوران اس کی بہت کم مرمت ہوئی اور اب اس کی حالت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ لاکھوں بیرل تیل سمندر میں پھیل سکتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتی ہے۔

2015 میں حوثیوں کے کنٹرول سنبھالنے پر بین الاقوامی انجینیئرز جہاز چھوڑ گئے تھے (فوٹو: روئٹرز)

آئل ٹینکر سے محفوظ انداز میں نمٹنے کے لیے دو مراحل پر مشتمل آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، پہلے میں تیل کو کسی دوسرے جہاز میں منتقل کیا جائے گا اور تب تک محفوظ مقام پر رکھا جائے گا جب تک یمن کی سیاسی صورت حال اس حد تک بہتر نہیں ہو جاتی کہ اس کو فروخت یا کسی اور جگہ منتقل کیا جا سکے۔
فرحان حق کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن عطیات کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے سات کروڑ 30 لاکھ ڈالر موصول ہو چکے ہیں اور اب اقوام متحدہ اس قابل ہے کہ ’تیاری کا ضروری کام‘ شروع کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری تکنیکی سروسز حاصل کر لی گئی ہیں جن میں آبدوزوں، میری ٹائم، انشورنس اور جہاز کے بروکر اور تیل کے ماہرین شامل ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’جس کمپنی سے آپریشن کا معاہدہ کیا گیا ہے وہ ہنگامی آپریشن کے حوالے جدید آلات رکھتی ہے۔‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آپریشن کے لیے 73 ملین کے عطیات موصول ہو چکے ہیں (فوٹو: یو این)

فرحان حق کے بقول ’اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے بہت بڑے جہاز کو استعمال کرنا پڑے گا اور اقوام متحدہ تب تک یہ کارروائی شروع نہیں کر سکتی جب تک یہ یقینی ہو جائے کہ تیل کے لیے محفوظ جہاز کا بندوبست نہ ہو جائے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرین جنگ کے باعث مطلوبہ نوعیت کے جہازوں کی دستیابی میں کمی آئی ہے جبکہ ان کی قیمتیں بھی تقریباً دو گنا بڑھ گئی ہیں۔‘
خیال رہے 2015 میں یمن کے مغربی ساحلی شہر الحدیدہ میں صافر نامی آئل ٹینکر کو بین الاقوامی میرین انجینیئرز اس وقت لاوارث چھوڑ کر چلے گئے تھے جب حوثیوں نے کنٹرول سنبھالا تھا۔
تب سے آئل ٹینکر وہیں لنگرانداز ہے اور شکست و ریخت سے دوچار ہے۔

شیئر: