Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم کی تلخ نوائی: پہلے تنقید عمران کی پالیسی پر اب ذاتی باتوں پر ہے

سیاسی مبصرین کے مطابق ’عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رولز آف گیم تہس نہس کر دیے‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)
پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز کی سیاسی مہم جاری ہے اور تقریباً ہر روز ہی وہ کسی نہ کسی شہر میں پارٹی کارکنان سے خطاب کر رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الزام ہے کہ مریم نواز کی جانب سے عمران خان پر ذاتی حملوں کے ایک سلسلے کا آغاز کیا گیا ہے اور ان کے بچوں، بیماری اور خانگی فیصلوں پر بات کرتے ہوئے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ ن کے دوسرے درجے کے سیاستدان اس سے قبل عمران خان کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق خود چیئرمین پی ٹی آئی بھی اپنے مخالفین پر الزام تراشی کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے سے باز نہیں آتے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مریم نواز نے بحیثیت پارٹی کی چیف آرگنائزر عمران خان کے بچوں اور اخلاقیات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین مریم نواز کی طرف سے ذاتی نوعیت کے ان جارحانہ حملوں کو ان کی مجموعی سیاسی پالیسی میں تبدیلی اور بیانیے کی جنگ میں گولہ بارود کے فقدان سے تعبیر کر رہے ہیں۔  
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق مسلم لیگ ن کی قیادت کو نظر آ گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو کھیل عمران خان کھیل رہے ہیں وہ بھی وہی انداز اپنا کر میدان میں رہ سکتے ہیں، بصورت دیگر وہ اس سے باہر ہو جائیں گے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کو محسوس ہو رہا ہے کہ ’اس وقت عمران خان کے رولز آف گیم چل رہے ہیں اور انہیں بھی عمران خان کے رولز پر ہی کھیلنا ہو گا۔‘
’اس سے قبل 1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رولز چلتے تھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی سیاست کرتے تھے۔ پھر انہوں نے سنہ 2006 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے نئے رولز سیٹ کیے لیکن عمران خان نے آ کر کہا کہ یہ مُک مُکا ہے اور انہوں نے ان دونوں کے رولز آف گیم تہس نہس کر دیے۔‘

لندن سے واپسی کے بعد مریم نواز نے مختلف شہروں میں جلسے کیے۔ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

ٹی وی میزبان نادیہ نقی کا ماننا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو اس سطح پر لے گئے ہیں کہ اب وہ بھی انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز کی طرف سے اس طرح کے بیانات کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ خود عمران خان نے بھی اسی طرح کی زبان استعمال کی ہے اور آج کے سیاسی ماحول میں سیاسی کارکنوں اور ’چارجڈ کراؤڈ‘ کو اسی طرح کی باتیں پسند آتی ہیں۔ اسی لیے مریم نواز عمران خان کو انہی کی زبان میں مخاطب کرنا چاہتی ہیں۔‘
لیکن مریم نواز کی حکمت عملی میں تبدیلی کی نادیہ نقی کے مطابق ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ ان کے پاس ’سیاسی اور انتخابی جنگ میں گولہ بارود کا فقدان‘ ہے۔
’تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد معاشی حالات بہت خراب ہوئے ہیں، مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکا اور حکومت کی کارکردگی پر بات کرنے کے لیے کچھ ہے نہیں تو پھر بیانیے کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔‘
نادیہ نقی کے خیال میں ’اس ماحول میں عمران خان کے پاس بات کرنے کے لیے زیادہ مواد ہے اور ضروری نہیں کہ وہ مریم نواز کی ان کے بچوں یا بیماری کے متعلق کی گئی بات کا جواب دیں۔
’عمران خان اس وقت انتخابی مہم کو لے کر چل رہے ہیں اور اس کے لیے ان کے پاس مہنگائی جیسا موضوع ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام بڑی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں سمیت سوشل میڈیا پر ذاتی نوعیت کے حملوں سے باز رہیں۔

ماہرین کے مطابق ’سیاسی قائدین کو اپنی کارکردگی پر بات کرنی چاہیے نہ کہ دوسروں کی بیماری، بچوں، میک اپ یا سرجری پر‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر بات کرنی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کی بیماری، بچوں، میک اپ یا سرجری پر۔‘
ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی سیاست کا ماحول 1990 اور 2006 سے پہلے والا بن گیا ہے جب میثاق جمہوریت پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔ 
’تہذیب میں رولز آف گیم دو بنیادی اصولوں آئین، قانون اور رواج پر مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس ماحول میں یہ غائب رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دونوں بڑی جماعتوں کے بیانیوں میں مواد نہیں ہے۔‘
ان کے خیال میں دونوں بڑی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس بارے میں کوئی معاہدہ کرنا پڑے گا اور سیاسی ماحول کو بہتر بنانا پڑے گا، بصورت دیگر وہ ایک دوسرے کے لیے تو مشکلات پیدا کریں گے ہی لیکن عوام کی زندگیوں میں بھی مزید مسائل کا اضافہ کریں گے۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن الزامات کی سیاست کرتی تھیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر عمر نے اس صورتحال میں بہتری کے امکان کو کم از کم انتخابات کے انعقاد تک خارج از امکان قرار دیا۔  
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت نے کارکنوں اور سپورٹرز کے دباؤ پر اس پالیسی میں تبدیلی کی ہے اور فوری طور پر اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نظر نہیں آتا۔
’ہمارے اوپر کارکنوں اور سپورٹرز کا بہت دباؤ تھا۔ ایسی زبان کی شروعات پی ٹی آئی نے کی تھی۔ خاص کر تحریک عدم اعتماد کے بعد انہوں نے اس میں بہت اضافہ کیا اور ہمیں سیاسی مخالف کی بجائے دشمن کا درجہ دے دیا، اس کو اچھائی اور برائی کی جنگ بنا دیا۔‘
محمد زبیر عمر کے مطابق ’ہم نے تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاست چھوڑ دی تھی، ہم حکومت میں تھے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی 24 گھنٹے سیاست کر رہی تھی۔ پھر احساس ہوا کہ اگر سیاست نہیں کریں گے تو بعد میں آپ صورتحال سنبھال نہیں سکیں گے۔ پھر جیسا کہ ہوتا ہے کہ ہر جماعت میں ایسی صورتحال میں سخت موقف رکھنے والے حاوی ہو جاتے ہیں تو ہمارے اوپر بھی کارکنوں کا دباؤ تھا۔‘
ایک سوال کے جواب میں زبیر عمر نے کہا کہ ان کے خیال میں مریم نواز نے جتنی کُھل کر باتیں کر دی ہیں اب اس سے آگے وہ نہیں جائیں گی۔ 

شیئر: