Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگی رہنما میرے بیانیے کا ساتھ نہیں دیتے: مریم نواز کا شکوہ

لندن سے واپسی کے بعد مریم نواز نے پارٹی ورکرز کنونشن اور مقامی تنظیموں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے (فوٹو: ٹوئٹر، پی ایم این این)
پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے شکوہ کیا ہے کہ پارٹی رہنما بیانیہ بنانے میں ان کا ساتھ نہیں دیتے، جارحانہ رویہ اپنائے بغیر موجودہ حالات میں سیاسی بقا ممکن نہیں ہے۔  
گذشتہ ماہ لندن سے واپسی پر مریم نواز نے ملک کے مختلف اضلاع میں پارٹی ورکرز کنونشن اور پارٹی کی مقامی تنظیموں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جہاں وہ ایک دن ورکرز سے خطاب کرتی ہیں اور اگلے دن پارٹی کی مختلف تنظیموں کے ساتھ اجلاس اور ملاقاتیں کرتی ہیں۔  
ان اجلاسوں میں جہاں آنے والے انتخابات میں متعلقہ ڈویژن کے قومی اور صوبائی اسمبلی میں پارٹی امیدواروں کے حوالے سے مشاورت ہوتی ہے وہیں تنظیم سازی، انتخابی مہم اور سوشل میڈیا پر پارٹی بیانیے کو پھیلانے کے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔  
23 فروری کو سرگودھا میں مریم نواز نے اپنی اس مہم کو جارحانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ کے دو حاضر سروس، دو سابق چیفس جسٹس صاحبان اور  سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر دکھا کر انھیں پانچ کا ٹولہ قرار دیا اور کہا کہ ’نوازشریف کے خلاف سازش میں یہ پانچ فراد کا ٹولہ شامل تھا۔ یہی پاکستان کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں ان کا سرغنہ جنرل (ر) فیض حمید تھے۔‘  
مریم نواز نے کہا کہ ’2014 کا دھرنا ناکام ہو گیا تو عدلیہ میں سے جج اٹھائے، جو کرپٹ جج کرپٹ تھا ان کے ساتھ تھا، مسلم لیگ (ن) کے سارے لیڈروں کو چن چن کر نااہل کیا گیا۔ جنرل فیض کو آرمی چیف بننے کے لیے مہرے کی ضرورت تھی۔ جب مارچ ناکام ہوا تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ پانامہ کا کیس میرے پاس لے کر آؤ۔‘ 

سرگودھا میں خطاب میں مریم نواز نے ججز اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف جارحانہ انداز اپنایا (فائل فوٹو: ٹوئٹر، پی ایم ایل این)

ان کے اس بیانیے کو سوشل میڈیا پر ان کے مخالفین نے عدلیہ مخالف مہم اور عدلیہ پر حملے کے مترادف قرار دیا۔ ن لیگی سوشل میڈیا ورکرز بالخصوص مریم نواز کو پسند کرنے والوں نے اس حوالے سے ٹویٹس بھی کیں لیکن پارٹی کی پہلی اور دوسری کیٹگری کے لوگوں نے اس بیانیے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔  
24 فروری کو سرگودھا میں ہونے والے تنظیمی اجلاس میں مریم نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں سے شکوہ کیا کہ ’میں جب بھی کوئی بیانیہ بناتی ہوں اور اس پر اپنی جان اور مستقبل کی پرواہ کیے بغیر ہی بات کرتی ہوں لیکن پارٹی رہنما اس بیانیے کو پروموٹ کرنے میں میرا ساتھ نہیں دیتے۔‘  
اجلاس میں موجود ایک لیگی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مریم نواز نے کچھ رہنماؤں کی تعریف بھی کی لیکن مجموعی طور پر انھوں نے پارٹی قیادت سے گلہ کیا اور کہا کہ جو لوگ کابینہ میں بیٹھے ہیں ان کے عہدوں کا تو کچھ تقاضا ہو سکتا ہے کہ وہ کھل کر بات نہ کریں لیکن پارٹی کے دیگر رہنماؤں، ارکان اسمبلی، صوبائی اور ضلعی عہدیداروں اور سوشل میڈیا ورکرز کو پارٹی بیانیے پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔‘ 
اسی طرح 28 فروری کو ساہیوال میں بھی مریم نواز نے اس شکوہ کو دوہرایا اور چار مارچ کو گوجرانوالہ میں تنظیمی اجلاس میں بھی پارٹی قیادت سے گلہ کیا۔  

مریم نواز آج کل مختلف علاقوں کے دورے کر کے پارٹی کارکنوں سے ملاقات کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

گوجرانوالہ میں مریم نواز کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزرا خواجہ آصف، خرم دستگیر، رانا ثنا اللہ، عطا تارڑ  سمیت سابق وفاقی وزرا، ارکان اسمبلی اور دیگر کی موجودگی میں مریم نواز نے کہا کہ ’میں نے اور نواز شریف نے جب بھی کوئی بیانیہ بنایا اس کی قیمت بھی ادا کی لیکن اس کے ساتھ کھڑے رہے۔اس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ہم نے لگاتار 17 ضمنی انتخابات جیتےلیکن اب جو میں بیانیہ بنا رہی ہوں اس پر پارٹی قیادت کی عدم دلچسپی سمجھ سے باہر ہے۔‘  
گوجرانوالہ پارٹی اجلاس میں شریک ایک لیگی رہنما نے بھی اردو نیوز سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ مریم نواز نے پارٹی رہنماؤں سے گلہ شکوہ کیا اور کہا کہ ’پی ٹی آئی کے جھوٹے پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی مصلحت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب کھل کر سامنے آنا ہوگا اور سوشل میڈیا سمیت الیکٹرونک میڈیا پر پارٹی بیانیے کی ترویج کے لیے متحرک ہونا ہو گا۔‘  
لیگی رہنما کے مطابق ’مریم نواز نے کہا کہ اس وقت جو صورت حال ہے اور سیاسی ماحول بن چکا ہے اس میں جارحانہ رویہ اپنائے بغیر سیاسی بقا ممکن نہیں ہے اس لیے پارٹی کی تمام قیادت اور سوشل میڈیا ورکرز سب متحرک ہوں اور پارٹی بیانیے کے ساتھ جڑ جائیں۔‘  
مریم نواز کے اس شکوے کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ ان اجلاسوں کے بعد پارٹی کے اکثر رہنما مریم نواز کے بیانیے کے حوالے سے ٹویٹس کرتے نظر آ رہے ہیں۔  

مریم نواز کا ماننا ہے پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی مصلحت کی ضرورت نہیں ہے، کھل کر سامنے آنا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی سطح پر سوشل میڈیا سیل قائم کرنا شروع کر دیے ہیں جو نہ صرف مقامی رہنماؤں اور امیدواروں کی سرگرمیوں کو سوشل میڈیا پر تشہیر کریں گے بلکہ قومی سطح کے پارٹی کے بیانیے کو بھی مقامی سطح پر عوام میں پھیلانے میں کردار ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔  
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ بعض پارٹی رہنماؤں اور ورکرز نے مریم نواز کے سامنے یہ معاملہ بھی اٹھایا کہ ماضی جب بھی سوشل میڈیا پر پارٹی بیانیے کے حوالے سے متحرک ہوئے اور ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے ان کے خلاف کارروائیاں کیں تو پارٹی رہنماؤں اور اپنی حکومت ہونے کے باوجود کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس پر مریم نواز نے کہا کہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں اور اس معاملے پر وزیراعظم سے بھی بات کر چکی ہیں۔  
اس اجلاس میں بعض امیدواروں نے پارٹی رہنماؤں کی جانب ان کے حلقوں میں مداخلت اور اپنے رشتہ داروں کو پارٹی عہدے دینے کے لیے سفارشیں کرنے کی بھی شکایت کی۔ مریم نواز نے اس حوالے سے کہا کہ کسی بھی رہنما کو دوسرے حلقے میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ رشتے داروں کو عہدے دینے سے پارٹی مضبوط نہیں ہو گی بلکہ محنت کرنے والے اور متحرک ورکرز کو عہدے دیے جائیں تاکہ انھیں احساس دلایا جا سکے کہ پارٹی ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔  

شیئر: