Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات ہو رہے ہیں، نہیں ہو رہے: ماریہ میمن کا کالم

الیکشن کمیشن نے بھی پنجاب میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان ک رکھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
دو صوبائی انتخابات کے انعقاد میں اب کوئی قانونی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ سپریم کورٹ کا واضح حکم موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی پنجاب میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔
ریٹرننگ افسران کی نامزدگی ہو چکی ہے اور کاغذات نامزدگی بھی ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے گورنر کی طرف سے تاخیری حربے یقیناً سامنے آ رہے ہیں مگر کوئی ایسی صورت نہیں کہ انتخابات کو ملتوی کیا جا سکے۔ اس لیے اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن تو ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف بھی عجیب صورت حال ہے۔ ملک کے قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ ادارے باقاعدہ طور پر الیکشن کمیشن کو بریفنگ دے چکے ہیں کہ الیکشن کا انعقاد خطرے سے خالی نہیں ہے۔
حکومت نے ایک طرف مردم شماری کا آغاز کیا ہوا ہے اور دوسری طرف الیکشن کروانے کے لیے وسائل دینے سے صاف معذوری ظاہر کی ہے جس کو صاف انکار ہی سمجھا جانا چاہیے۔
 لاہور میں دفعدہ 144 چل رہی ہے۔ الیکشن میں 45 دن باقی ہیں اور کسی قسم کی انتخابی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی ریلی کو تشدد کا نشانہ بنا کر طاقت سے روکا جاتا ہے۔ اگر اس سب صورت حال کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ الیکشن نہیں ہو رہے۔ 
سوال تو پھر یہ ہے کہ الیکشن کیسے ہوں گے؟ آئین کے پاس اس کا واضح جواب ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور کوئی ایسی صورت نہیں کہ الیکشن 90 دن سے آگے جائیں۔
سیاسی جواب البتہ غیر واضح سے غیر واضح تر ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا پہلے دن سے مطالبہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت ملک میں فوری عام انتخابات کرا دیے جائیں۔
دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس کے باجوود اگر عام انتخابات نہیں ہوتے تو ان کی تمام توقعات تو پوری نہیں ہوں گی مگر سیاسی طور پر ان کو فائدہ ہی نظر آ رہا ہے۔ حکومت مہنگائی اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پر غیر مقبول ہے اور ابھی تک ہونے والے اکثر ضمنی انتخاب ہار چکی ہے۔

اس وقت انتخابات کے حوالے سے سیاسی صورت حال غیرواضح ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی اگر صوبائی انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے تو آگے ہونے والے قومی انتخابات میں بھی اس کا پلڑا بھاری ہو گا۔ اس لیے باوجود اس کے کہ وہ اپنے مقصد یعنی فوری عام انتخابات میں صرف جزوی حد تک کامیاب ہو گی، ان کا سیاسی بہاؤ اسی زور سے رہے گا اور اسی لیے دو قسطوں میں الیکشن ان کے لیے قابل قبول ہوں گے۔ 
پی ڈی ایم اور حکومت کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ ان کے حکومتی اور سیاسی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ڈیل بدستور تاخیر کا شکار ہے۔ معاشی میدان میں کوئی اچھی خبر نہیں اور سیاسی میدان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ سیاسی طور پر ان کی حکمت عملی لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر عمران خان کو دوڑ سے باہر کرنا اور نواز شریف کو واپس لانا ہے۔
دونوں طرف ان کو کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی دونوں ہی طرف سے ان کو چیلنج درپیش ہے۔ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی انتخابات شیڈول کے مطابق ہو جاتے ہیں تو انتخابی مہم اور اس کے ساتھ منسلک سیاسی گہما گہمی میں ان کی توجہ بھی بٹے گی اور انتخابات کے ماحول میں دیگر سرگرمیاں بھی پیچھے رہ جائیں گی۔
اور اگر ووٹرز کے مزاج کو دیکھا جائے اور نتیجے کا اندازہ لگایا جائے تو 30 اپریل کے بعد ان کے ہاتھ سے کام کے پتے بھی نکل چکے ہوں گے۔ اس لیے ان کی طرف سے انتخابات سے بچنے کی کوشش پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ 
سوال آخر میں یہ ہے کہ اس پیچیدہ صورتحال میں سے نکلا کیسے جائے؟ الیکشن کا صرف ہونا ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ الیکشن مہم میں اتفاق ، اصول اور رواداری بھی نظر آنی چاہیے۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارنہ نظر آنے چاہییں۔
موجودہ حالات میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر بحالت مجبوری انتخابات ہوئے بھی تو کمپین بھی اسی طرح تنازعات کی نظر رہے گی اور نتائج پر بھی اتفاق نہیں ہو سکے گا۔ اس صورتحال میں تمام فریقین کا آپس میں بات چیت کر کے ایک محدود سطح کی ورکنگ ریلییشن شپ بنانا بہت ضروری ہے۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جا کر جو بات چیت کا آغاز کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔ اگر دیگر بنیادی امور پر اتفاق رائے ہو جائے تو ہی انتخابات پرامن اور متفقہ طور پر ہو سکیں گے مگر اس کے لیے پہل حکومت کو ہی کرنا ہو گی اور اعتماد کا سگنل دینا ہو گا۔

شیئر: