Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساڑھے پانچ لاکھ یمنی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں: اقوام متحدہ

یونیسف کے مطابق ہر 10 منٹ بعد ایک متاثرہ یمنی بچہ دم توڑ جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یمن میں پانچ لاکھ 40 ہزار سے زائد ایسے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے اور ہر 10 منٹ بعد ایک بچہ ان مسائل کی وجہ سے مر جاتا ہے جن کو حل کیا جا سکتا ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ اگر فنڈز میں اضافہ نہ ہوا تو وہ یمن کے بچوں کے لیے امدادی اقدامات کم کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
یونیسف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امدادی اقدامات جاری رکھنے لیے اس سال 48 کروڑ 40 لاکھ ڈالر درکار ہیں تاہم پچھلے ماہ سوئرزلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں اقوام متحدہ نے اپنی تمام ایجنسیز کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جس میں ہدف کے مقابلے میں چار ارب 30 کروڑ ڈالر کم ہیں۔
آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ’2022 کے دوران بھی یمن کے خطرے سے دوچار بچوں کی مدد کے لیے فنڈز کی کمی سامنا رہا۔ اگر فنڈز نہ ملے تو یونیسف بچوں کی مدد کا دائرہ کار کم کرنے پر مجبور ہو گا۔‘
یمن میں تنازع 2014 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے ایک بغاوت کے ذریعے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔
عرب اتحادی ممالک نے اگلے سال وہاں کی قانونی حکومت کی حمایت کے لیے مداخلت کی اور 26 مارچ 2015 کو حوثیوں کے ٹھکانوں پر پہلا حملہ کیا۔
یمن میں فائربندی کا معاہدہ پچھلے برس ختم ہوا تاہم بڑے پیمانے پر لڑائی کا سلسلہ رکا رہا۔

یونیسف نے کم فنڈز کے باعث یمن میں امدادی سرگرمیاں محدود ہونے کا خدشہ ظاہر ہے (فوٹو: یونیسف)

2015 میں تنازع کے شدت اختیار کر جانے کے بعد سے اب تک 11 ہزار سے زائد بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ یمن کی جنگ کو دنیا کے بدترین انسانی المیوں میں سے ایک قرار دیتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ دو کروڑ 70 لاکھ افراد جو یمن کی آبادی کا دو تہائی حصہ ہے، کو اس سال انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت درپیش ہو گی۔

شیئر: