Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے بہتے دریا سونا کیسے اُگل رہے ہیں؟

پشاور ہائی کورٹ نے دریا کے کنارے کھدائی اور کرشنگ پر مکمل پابندی عائد کی تھی (فائل فوٹو: اردو نیوز)
خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کے ذرّات دریا میں بہہ کر ساحلی علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں اور دریائے سندھ کا پانی یہی سونا اُگل رہا ہے۔
سونے کے ذرّات یا پلیسر گولڈ گلگت بلتستان، سوات اور چترال کے دریاؤں میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جو دریا کے کنارے ریت میں شامل ہو جاتے ہیں۔
گلگت بلستان میں دیامر، ہنزہ اور نگر وادی کو سونے کے ان  ذرّات سے مالا مال سمجھا جاتا ہے۔
سونا کہاں سے آتا ہے؟
جامعہ پشاور میں شعبہ ارضیات کے پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’زمین کے تین قسم کے حصے چٹانوں پر مشتمل ہیں جس کا ایک حصہ جو زمین کی نچلی سطح پر ہوتا ہے اسے میگما کہتے ہیں۔
میگما سے مختلف عناصر نکلتے ہیں جس میں پلیسر گولڈ یعنی سونا بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی کے مطابق ’سونے کے ذرّات کی خاصیت کی وجہ سے یہ دوسرے عناصر سے آمیزش نہیں کرتے، اس لیے یہ زمینی سطح پر موجود رہتے ہیں اور نمایاں ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پھر یہ پلیسر گولڈ ریت یا پتھر کے ساتھ مل کر گلیشیئر یا دوسری وجوہات کے باعث دریا تک پہنچ جاتے ہیں۔ سونے کے ذرّات بھاری ہونے کی وجہ سے پانی میں نیچے رہ جاتے ہیں اور جہاں پانی کی رفتار ہو یہ کنارے پر آجاتے ہیں۔‘
پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی کا کہنا تھا کہ ’جس مقام میں دو دریاؤں کا ملاپ ہو رہا ہو سونا وہاں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جیسا کہ اٹک دریا کابل کے مقام پر دو دریا ملتے ہیں وہاں پلیسر گولڈ موجود ہے اور لوگ نکالتے بھی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سونا ہر جگہ ایک ہی کوالٹی کا ہوتا ہے لیکن کچھ جگہوں پر یہ زیادہ پایا جاتا ہے جیسے گلگت بلتستان کے کچھ ایک علاقوں میں اس کی مقدار زیادہ ہے۔
سونے کے ذرّات کو کیسے نکالا جاتا ہے؟
سونے کے ذرّات کو دریا کے کنارے تلاش کیا جاتا ہے اور اس طریقہ کار کو پلیسر گولڈ مائننگ کہتے ہیں جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ سونے کے ذرّات نکالنے والے محنت کش شریف اللہ نے اُردو نیوزکو بتایا کہ دریا کے کنارے موجود ریت اور پتھروں سے روایتی طریقے سے سونے کے ذرّات نکالے جاتے ہیں۔

نوشہرہ کے مقام نظام پور پر 16 افراد کو گرفتار کیا گیا جو ریت سے سونا نکال رہے تھے (فائل فوٹو: اُردو نیوز)

’اس کے لیے سب سے پہلے ریت کو ایک چھلنی پر ڈالتے ہیں جس کے بعد چھلنی کے نیچے رہ جانی والی ریت کو ایک کشتی نما لکڑی کے آلے پر ڈالا دیا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں کھراب کہتے ہیں۔‘
شریف اللہ نے بتایا کہ ریت کے اوپر آہستہ آہستہ پانی ڈالا جاتا ہے اور اس طرح سونے کے ذرّات نیچے بچ جاتے ہیں۔ پانی میں شامل ریت کے اندر سونے کے سنہرے ذرّات نمایاں ہو جاتے ہیں جنہیں علیحدہ کرنے کے لیے پارے کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور یوں سونا الگ ہوجاتا ہے۔‘
شریف اللہ کے بقول دریا میں سونے کے ذرّات اتنے زیادہ ہیں کہ ’ایک مزدور آسانی سے پانچ سے چھ ہزار روپے کما لیتا ہے مگر یہ ایک محنت طلب کام ہے۔‘
چلّاس سے تعلق رکھنے والے نعیم خان بھی گذشتہ 30 برس سے دریائے سندھ سے سونا نکال کر بیچ رہے ہیں۔ اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’سال میں تین ماہ فروری سے اپریل تک سونا نکالنے کا سیزن ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پانی کی سطح کم ہو تب ہم سونا نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے جس کے لیے مزدور چاہیے ہوتے ہیں کیونکہ دن بھر 40 سے 50 بوری ریت سے ایک یا دو ماشہ سونا نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اگر قسمت اچھی ہو تو تین سے چار ماشہ سونا بھی تلاش کرلیتے ہیں۔‘
نعیم خان کے مطابق دریا کے کنارے سونا ڈھونڈنے میں خواتین بھی مردوں کے ہمراہ ہوتی ہیں۔
ضلع چترال میں سونے کے ذخائر کہاں موجود ہیں؟ 
چترال سے تعلق رکھنے والے کنٹریکٹر اسد الرحمان سمجھتے ہیں کہ ’اپر چترال کے علاقے کا سونا اپنی مثال آپ ہے۔ چیونج گاؤں کے مقام پر دو دریا ملتے ہیں اس جگہ دریا کے کناروں پر بڑی تعداد میں سونے کے ذرّات پائے گئے ہیں اسی طرح شوغور کے علاقے میں سونے کے ذخائر موجود ہیں۔‘

سونے کے ذرّات گلگت بلتستان، سوات اور چترال کے دریاؤں میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’آج سے کچھ سال قبل خانہ بدوش دریا کے کنارے آکر آباد ہوئے اور سونا نکالنے کا سلسلہ شروع کیا جن سے آہستہ آہستہ مقامی لوگوں نے بھی یہ کام سیکھ لیا۔‘
اسد الرحمان نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر ایکسکویٹراور مشینوں کی مدد سے سونا نکالا جا رہا ہے جس کے لیے مختلف کمپنیاں لائنسنس حاصل کرتی ہیں۔ ’چین کے پاس جدید آلہ موجود ہے جس کو ریت پر رکھنے سے سونے کے ذرّات ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں اور اس جدید طریقے سے کم وقت میں زیادہ سونا حاصل کیا جاتا ہے۔‘
کنٹریکٹر اسد الرحمان کے مطابق گذشتہ سال چینی کمپنی کو پرمٹ دیا گیا تھا جسے کچھ عرصے بعد منسوخ کردیا گیا۔ ’دریا کے کنارے کھدائی پر پابندی ہے اس لیے بڑے پیمانے پر پلیسر گولڈ مائننگ نہیں ہو رہی البتہ پرانے طریقے سے لوگ مختلف جگہوں سے سونا نکال رہے ہیں۔‘
گولڈ مائننگ پر پابندی
دریا کے کنارے مائننگ سے متعلق پشاور ہائی کورٹ نے 21 ستمبر سال 2022 کو فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت دریا کے کنارے کھدائی اور کرشنگ پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔
عدالتی حکم کے باوجود دریائے کابل کے کناروں پر پلیسر گولڈ مائننگ ہو رہی ہے مگر انتہائی محتاط طریقے سے سونا نکالا جا رہا ہے۔
دو روز قبل نوشہرہ کے مقام نظام پور پر رات کو ضلعی انتظامیہ نے کارروائی کر کے 16 افراد کو گرفتار کیا جو ہیوی مشین اور ایکسکویٹر کی مدد سے ریت سے سونا نکال رہے تھے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قراۃ العین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ٹھیکیدار سمیت مزدوروں کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ 20 ایکسکویٹر بھی قبضے میں لے لیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی گولڈ مائننگ کی شکایت موصول ہوئی تھی۔ گرفتار افراد میں زیادہ تر لوگ غیر مقامی ہیں جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اے ڈی سی قراۃ العین کے مطابق ’دریا کے کناروں پر تین مقامات ہیں جہاں یہ غیر قانونی گولڈ مائننگ ہوتی ہے مگر اس میں مقامی لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں اس لیے انتظامیہ تک بات نہیں پہنچتی۔‘
ماہرین کے مطابق دریا کے کنارے  غیرملکی کمپنیوں کو لیز پر دینے کے بجائے اگر مقامی لوگوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہوجائے تو پلیسر گولڈ مائننگ سے نہ صرف لوگوں کو روزگار کا موقع ملے گا بلکہ اس سے سرکار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

شیئر: