Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس نے ڈی ایس پی عثمان حیدر کی اہلیہ اور بیٹی کے قتل کا معمہ کیسے حل کیا؟

تفتیشی ٹیم نے عثمان حیدر کی سرکاری گاڑی کی سیٹوں کا کور ہٹایا تو ثبوت سامنے آنے لگے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تفتیشی ٹیم نے جب سابق ڈی ایس پی عثمان حیدر کے زیر استعمال سرکاری گاڑی کی سیٹوں کا کور ہٹایا تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ 
ڈیڑھ ماہ سے ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کی اہلیہ اور بیٹی کے اغوا کا معمہ حل کرنے والی تفتیشی ٹیم کے لیے سرکاری گاڑی کی سیٹ میں لگا فوم اب تک کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔
یہ ثبوت جب تفتیشی ٹیم کے سربراہ ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن ایاز حسین نے رات کے تین بجے عثمان حیدر کے سامنے رکھے تو انہوں نے 10 منٹ سوچنے کے بعد اچانک کہا کہ ’مجھے شیخوپورہ لے چلیں۔‘
رواں برس پنجاب پولیس کے ایک حاضر سروس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) محمد عثمان حیدر نے لاہور کے تھانہ برکی میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ 
اٹھارہ اکتوبر کو درج کیے گیے اس مقدمے میں عثمان حیدر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 27 ستمبر سے ان کی اہلیہ اور بیٹی لاپتا ہیں جبکہ ان کے فون نمبرز بھی بند ہیں اور سسرال والوں کو بھی کوئی علم نہیں۔ 
ایف آئی آر درج ہوتے ہی تفتیش کا آغاز کردیا گیا اور ابتدائی مرحلے میں پولیس نے وہی کیا جو ایسے کسی بھی اغوا کے کیس میں کیا جاتا ہے۔ 
اس حوالے سے ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن آیاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس نے عثمان حیدر، ان کی اہلیہ اور بیٹی کا سی ڈی آر (کالز ڈیٹیل ریکارڈ) حاصل کیا۔‘
’قریباً ایک ہزار نمبروں کی جانچ پڑتال ہوئی کہ کن کن لوگوں سے اُن کا رابطہ تھا، کون کہاں موجود تھا، لوکیشن پیٹرنز کیا تھے؟ ہر زاویے سے تفتیش شروع ہوئی۔'
حکام کے مطابق پولیس نے سب سے پہلے مبینہ مغویہ کے قریبی رشتہ داروں سے بات کی۔ مبینہ مغوی خاتون کی بہن، والدہ اور بہنوئی سے تفتیش ہوئی، تاہم اس دوران کوئی ایسی بات سامنے نہ آئی جس سے کوئی سراغ ملتا۔ 
نہ تاوان کا کوئی مطالبہ، نہ کسی سے دشمنی کا سراغ، نہ کوئی واضح دھمکی موجود تھی۔ کیس آگے بڑھنے کے بجائے ایک جگہ ٹھہر سا گیا تھا۔ 
ایس پی ایاز حسین کے مطابق ’سی ڈی آر کے تفصیلی تجزیے میں ایک غیرمعمولی بات سامنے آئی جس سے تفتیش کا رُخ مدعی کی جانب مُڑنے لگا۔‘
ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’سی ڈی آر سے معلوم ہوا کہ 25 ستمبر کی رات ساڑھے دس بجے سے لے کر ساڑھے تین بجے تک عثمان حیدر کا موبائل فون بند رہا۔‘ 
’قریباً پانچ گھنٹے کے لیے ایک سینیئر پولیس افسر کا فون بند رہنا اتفاقیہ معلوم نہیں ہو رہا تھا۔یہی وہ لمحہ تھا جب شکوک و شبہات ٹھوس شکل اختیار کرنے لگے۔‘ 

سی ڈی آر سے معلوم ہوا کہ 25 ستمبر کی رات 10:30 سے اگلی صبح  تک 3:30 تک عثمان حیدر کا موبائل بند رہا (فائل فوٹو: پِکسابے)

گاڑی کی سیٹوں سے کَور ہٹایا گیا
پولیس نے فیصلہ کیا کہ اب شکوک و شبہات ٹھوس ثبوت کے ساتھ واضح کیے جائیں۔ پولیس نے سابق ڈی ایس پی عثمان حیدر کے گھر کا فورینزک کرنے کے لیے ٹیم بلائی۔
ایس پی ماڈل ٹاؤن ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’گھر کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ ٹیم کو بیسن، واش رُوم اور بیڈ سے نہایت ہی کم مقدار میں خون کے ٹریسز ملے۔‘
’یہ وہ اشارہ تھا جس نے تفتیش کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔تفتیشی ٹیم نے اس کے بعد عثمان حیدر کی سرکاری گاڑی کا فورینزک کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
ایاز حسین کا کہنا ہے کہ ’جب گاڑی کی فرنٹ اور بیک سیٹ کے کور اُتارے گیے اور سیٹ کے اندر موجود فوم کی جانچ کی گئی تو تفتیشی ٹیم کے سامنے وہ ثبوت آگیا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔‘
انہوں نے اس کی تفصیل بتائی کہ ’فوم کے اندر کافی مقدار میں خون کے دھبے پائے گئے جن کی وجہ سے سیٹ کا فوم خشک ہوگیا تھا۔‘
اسی دوران ڈی آئی جی انویسٹیگیشن سید ذیشان رضا نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن ایاز حسین کے سپرد کی گئی۔
ان کے مطابق یہ آسان کام نہیں تھا۔ سامنے ممکنہ طور پر ایک ایسا ملزم تھا جو خود اس نظام کا حصہ تھا اور جو پولیس کے طریقۂ واردات کو جانتا تھا۔‘
’پوری رات تفتیش جاری رہی۔ جب تمام شواہد ایک ایک کر کے ملزم عثمان حیدر کے سامنے رکھے گئے تو وہ خاموش ہو گئے۔ 10 منٹ کے وقفے کے بعد انہوں نے ایک ہی جملہ ادا کیا کہ ’مجھے شیخوپورہ لے چلیں۔‘

تفتیشی ٹیم نے جب تمام شواہد ملزم عثمان حیدر کے سامنے رکھے گئے تو وہ خاموش ہو گئے (فائل فوٹو: روئٹرز)

شیخوپورہ اور لاہور میں لاشیں
گذشتہ ہفتے کی رات کے تین بجے گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور شدید دھند پھیلی ہوئی تھی۔ پولیس کی گاڑی سیالکوٹ موٹروے پر دوڑ پڑی۔ 
کالا شاہ کاکو انٹرچینج کے قریب پہنچ کر ملزم نے رُکنے کا اشارہ کیا۔ ایس پی انویسٹیگیشن ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’یہ علاقہ فیروزوالہ تھانے کی حدود میں آتا ہے۔‘
’عثمان حیدر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی لاش یہاں نالے میں پھینکی تھی۔ اسی رات ایس ایچ او کو طلب کر کے روزنامچہ کھولا گیا۔‘ 
پولیس کو ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ 5 اکتوبر 2025 کو اسی مقام سے ایک مسخ شدہ لاش ملی تھی جو بعد ازاں پوسٹ مارٹم کے بعد شیخوپورہ کے قبرستان میں امانتاً دفن کر دی گئی تھی۔
 ملزم اسی رات پولیس کو لاہور کی طرف لے آیا جہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اہلیہ کے بعد بیٹی کی لاش تھانہ کاہنہ کی حدود میں میلہ رام گاؤں کے قریب ندی میں پھینکی تھی۔ 
ریکارڈ کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ 27 ستمبر 2025 کو یہاں سے بھی ایک نامعلوم لاش ملی تھی جس کی عمر 20 سے 25 سال معلوم ہو رہی تھی جس کی جناح ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد گاؤں پنجو کے قبرستان میں تدفین کی گئی تھی۔
واردات کی رات
ملزم کے انکشافات کے مطابق 25 ستمبر کی رات ڈنر کے بعد رنگ روڈ پر جاتے ہوئے ان کی اہلیہ کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان رضا نے پیر کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم ڈی ایس پی عثمان نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔

ملزم ڈی ایس پی تفتیشی ٹیم کو لے کر کالا شاہ کاکو انٹرچینج کے قریب پہنچ گئے اور گاڑی روکنے کو کہا (فائل فوٹو: پی ٹی وی)

’ملزم نے اپنی پہلی اہلیہ کو قتل کیا جبکہ اس کی دوسری شادی اپنے خاندان میں ہوئی تھی۔ ملزم کی بیٹی ملزم کے بجائے اپنی ماں کی طرف داری کرتی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وجہ سے ملزم نے اہلیہ کے ساتھ بیٹی کو بھی قتل کیا۔ قتل میں سرکاری گاڑی کا استعمال ہوا اور ملزم نے پرائیویٹ پستول استعمال کیا۔ ملزم سے تاحال آلہ قتل برآمد نہیں ہوا۔‘
حکام کے مطابق یہ تنازع ایک پلاٹ کی خریداری پر تھا۔ اس حوالے سے ایس پی ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’مقتولہ چاہتی تھیں کہ ایک پلاٹ ان کے نام پر ہو کیونکہ بیٹی جوان تھی اور وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک محفوظ گھر کی خواہش مند تھی۔‘
’ملزم اس بات پر اہلیہ پر تشدد کیا کرتا تھا۔ 25 ستمبر کی رات گاڑی میں ہی تلخ کلامی پر اس نے پستول نکالا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اہلیہ کو دو جبکہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی بیٹی کو ایک فائر مارا۔ اور یوں لاشیں الگ الگ مقامات پر ٹھکانے لگائیں اور چند دن بعد، خود ہی اغواء کی ایف آئی آر درج کروا دی۔‘
حکام کے مطابق اب مقتولہ کی والدہ کو شکایت کنندہ بنا کر مزید شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ ایاز حسین اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’یہ دہرے قتل کا کیس ہے جس کی سزا قانون کے مطابق دو بار سزائے موت ہے۔‘ 
ہماری طرف سے مضبوط چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ڈی آئی جی انویسٹیگیشن سید ذیشان رضا نے کے مطابق ’چاہے کسی بھی رینک کا افسر ہو جُرم پر کوئی معافی نہیں ہے۔‘

 

شیئر: