Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی: پنجاب الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کی تحریک مسترد

 قومی اسمبلی نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے رواں مالی سال کے دوران اضافی اخراجات کی مد میں 21 ارب روپے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کرنے کے لیے ضمنی گرانٹ کی تحریک مسترد کر دی۔ 

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سنیچر کی شام کو تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی جس میں پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو رواں مالی سال کے دوران اضافی اخراجات کی مد میں وفاقی حکومت کو 21 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا

قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی  دوپہر بارہ بجے ہوگا۔

قبل ازیں وفاقی کابینہ نے پنجاب میں الیکشن کے لیے 21 ارب روپے کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

پیر کو وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زِیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والے کابینہ رکن وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ 
وزارت خزانہ نے سپریم کورٹ کی حکم پر سٹیٹ بینک کی جانب سے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کے لیے مختص کرنے کی سمری منظوری کے لیے پیش کی۔ کابینہ نے غور و خوض کے بعد سمری کی منظوری دے دی اور معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا تھا۔ 
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو سمری پارلیمنٹ کو بھجوانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کابینہ نے سمری کی منظوری دے دی ہے تاہم حتمی فیصلہ قومی اسمبلی ہی کرے گی۔
قبل ازیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز کے اجرا کا معاملہ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو بھیج دیا تھا۔
پیر کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا تھا۔
رُکن برجیس طاہر نے اجلاس کو بتایا کہ کمیٹی نے 13 اپریل کو دو گھنٹے غور کے بعد متفقہ طور پر منی بِل کو مسترد کر دیا تھا۔ ’ہمارا موقف تھا کہ پنجاب میں پہلے انتخابات سے باقی صوبوں کے انتخابات پر اثر پڑے گا، یہ موقف تبدیل نہیں ہوا۔‘

سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک کو فنڈز براہ راست الیکشن کمیشن کو ٹرانسفر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس کیا اختیارات ہیں، پہلے انھوں نے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کر کے ہمارا بیڑا غرق کیا۔
’سپریم کورٹ کس طرح سٹیٹ بینک کو پیسے ریلیز کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ چیئرمین صاحب آپ کو اس اجلاس بلانے سے قبل ہم سے مشاورت کرنا تھی۔‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’اراکین اسمبلی کی منظوری کے بغیر فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم جاری نہیں کی جا سکتی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے منی بل مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اب ہدایت کی ہے سٹیٹ بینک یہ رقم فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم پیدا کرے۔‘
وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک رقم جمع کر کے منظوری کے لیے وزارت خزانہ کو بھجوائی گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اب 21 ارب روپے کی رقم دیگر اخراجات میں پاس کروائی جائے گی۔ یہ رقم فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے نکل کر الیکشن کمیشن کو دے دی جائے۔
’قانون کے تحت اس رقم کے استعمال کے لیے قومی اسمبلی سے منظوری لینا ضروری ہے۔ میرے خیال میں یہ معاملہ قومی اسمبلی میں پیش ہونا چاہیے۔‘
برجیس طاہر نے کہا کہ ’آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا آڈر آئے گا اور سٹیٹ بینک تابعداری کرے گا۔‘
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ سٹیٹ بینک سے بھی پوچھ لیں کہ انہوں نے کیا جواب دیا ہے۔
قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک سیما کامران نے بتایا کہ ’ہمیں سپریم کورٹ کا حکم آیا ہم پیش ہوئے، ہم نے بتایا  کہ ہم پیسے مختص کر سکتے ہیں مگر ٹرانسفر کرنے کی اجازت وزارت خزانہ دے گی۔‘
رُکن خالد مگسی نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ پیسے کے استعمال کی کون اجازت دیتا ہے۔

قائمقام گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ پیسے مختص کر سکتے ہیں مگر ٹرانسفر کرنے کی اجازت وزارت خزانہ دے گی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

وزیر قانون نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایکس پوسٹ فیکٹو اجازت لے لی جائے۔
اٹارنی جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئین کے تحت فیڈرل کنسولیڈیڈ فنڈ سے رقم کے استعمال کی منظوری وزیراعظم کی جانب سے دی جا سکتی ہے، دوسری صورت میں رقم کے استعمال کو اخراجات بنا کر منظوری لی جا سکتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کی منظوری قومی اسمبلی سے لی جائے گی۔ قومی اسمبلی نے منظوری نہ دی تو اس کی ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری مشکل ہو جائے گی اس لیے پہلے قومی اسمبلی سے منظوری لی جائے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی وزارت خزانہ کو قانونی طریقہ کار مکمل کرنے کا کہے۔ پہلے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے اس کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔‘
وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ ’ہم قانون کے مطابق ہی عملدرآمد کریں گے، سمری کو وفاقی کابینہ کو بھیج دیتے ہیں۔‘

شیئر: