Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جماعتوں میں مذاکرات، سپریم کورٹ کے مشورے کے بعد ڈیڈلاک کا خاتمہ ممکن؟

پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
حکومت کی مرکزی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے مذاکرات کے مشورے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات مل بیٹھ کر حل کرنے چاہییں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کی پارٹی تحریک انصاف اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے جو مختلف جماعتوں کے قائدین سے مل کر مذاکرات کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ 
جمعرات کے روز آصف زرداری کے بیان کے بعد بھی بلاول بھٹو زرداری نے فضل الرحمان سے ملاقات کی اور اطلاعات کے مطابق انہیں پی ٹی آئی سے بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی وزیراعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کی طرف سے بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ ’فریقین مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور عام انتخابات کے لیے ایک متفقہ تاریخ پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘
تاہم اس بات چیت سے جڑے کئی افراد کا کہنا ہے کہ ’یہ کوششیں محض دکھاوا ہیں اور ابھی تک کسی بھی طرف سے کھلے دل سے اس عمل کا حصہ بننے کی ہامی نہیں بھری گئی۔‘
یہاں تک کہ جن جماعتوں کے مابین مذاکرات ہونا ہیں ان کے اندر سے متضاد موقف سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ابھی تک فریقین اس سلسلے میں ایک صفحے پر نہیں آئے۔  
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے رابطہ کرنے پر تین رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے تو دوسری طرف اس کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات مذاکرات کے لیے موافق نہیں ہیں اور حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں نے ان پر پانی پھیر دیا ہے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر چوہدری پرویز الٰہی کے بھی ہیں۔ 

پیپلز پارٹی کی جانب سے فضل الرحمان کو پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان پیپلز پارٹی ان مذاکرات کے لیے سرگرم دکھائی دینے کے لیے کوشاں تو ہے لیکن ان کی ملاقاتوں کے باوجود پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ابھی تک مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی اور وہ عمران خان کو سیاسی منظر نامے کا ’غیر ضروری عنصر‘ قرار دینے اور ان سے مذاکرات نہ کرنے کے اپنے بیان پر قائم ہیں۔  
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف بھی صاف لفظوں میں عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کر چکے ہیں۔  
ان بیانات کے بعد مذاکرات کے انعقاد کی سنجیدگی پر سوال اٹھتا ہے۔ 
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’مذاکرات کا ڈول ڈلتے ہی سیاسی جماعتوں میں موجود صلح جو اور جنگجو لوگ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔‘
’ہر جماعت کے اندر کچھ سخت گیر لوگ ہیں اور کچھ صلح جو قسم کے لوگ ہیں۔ وہ دونوں اپنے اپنے طور پر مذاکرات کی اس کوشش کو ناکام کرنے یا کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بیانات بھی دیتے ہیں۔ اعلٰی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور اعلٰی قیادت کو چاہیے کہ گفتگو کے لیے کوئی راستہ ہموار کرے۔‘ 
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے فریقین کی جانب سے اعتماد بحالی کے اقدامات ہونے چاہییں اور ان کی عدم موجودگی میں نہ تو اس طرح کی کوئی کوشش سنجیدہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب۔
ان کے مطابق ’جنگ بندی کر لیں، ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں، فوج کے خلاف پروپیگنڈا بند کر دیں۔ مقدمات بنانا بھی بند کر دیں۔ یہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات ہوں گے۔‘ 
’نشانہ بنانا بھی بند کردیں، کارکنوں کو پکڑنا، خواہ مخواہ گرفتار کرنا۔ کوئی صحیح مقدمہ ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر ایسے کام نہ کریں۔‘  

 رانا ثنا اللہ عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کر چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی کی طرف سے کی جانے والی کوشش کچھ عرصہ پہلے سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد کے اقدامات سے زیادہ سنجیدہ ہے اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر لیں، کیونکہ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
تجزیہ کار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر یہ منزل طے نہیں ہو گی۔‘
’مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی اس مسئلے میں پڑنا نہیں چاہتی۔ تو کچھ سیاسی جماعتیں موقع دیکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے متحرک ہو گئی ہیں۔ وقت گزارنے کے لیے یہ ایک اچھی سرگرمی ہے لیکن یہ سنجیدہ کوشش نہیں ہے۔‘ 
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ’اگر جماعت اسلامی مذاکرات اور اس کے نتیجے میں سنجیدہ بھی ہو تو ان کا سیاسی اثرورسوخ اتنا نہیں ہے کہ وہ ضامن کا کردار ادا کرسکے۔‘
’جماعت اسلامی کا اتنا وزن نہیں ہے۔ اگر انہیں کسی ایک فریق سے کوئی بات منوانی ہو تو وہ کیسے منوائیں گے؟ اور وہ کیسے یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ دونوں فریقین طے شدہ باتوں پر عمل کریں گے؟‘  
ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ مذاکرات کروانا چاہ رہے ہیں ان کے پاس اس کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی کوئی مینڈیٹ۔‘ 
’اس سارے عمل میں مثبت بات یہ نظر آرہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر ایک احساس پیدا ہو رہا ہے کہ انہیں اپنے مسائل خود حل کرنے چاہییں اور اس کے لیے سپریم کورٹ یا دوسرے اداروں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
ماجد نظامی کے مطابق ’ابھی ان کی انا اتنی بڑی ہے کہ وہ اس طرف عملی قدم بڑھائیں۔ اس احساس کے باوجود ابھی وہ اپنی انا چھوڑ کر مسئلہ حل کرنے کے لیے قدم بڑھانے کو تیار نہیں ہیں۔‘ 
’لہٰذا اب بھی جب تک اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔‘ 

شیئر: