Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اُن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جن کی دنیا کو پروا نہیں تھی: پہلے سعودی نوبیل انعام یافتہ عمر ایم یاغی

عمر ایم یاغی نے رچرڈ روبسن اور سائنسدان سوسومو کیٹاگاوا کے ساتھ کیمسٹری میں مشترکہ طور پر نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی امریکی سائنس دان عمر ایم یاغی کا سائنسی سفر غیرمعمولی ذہانت اور ذاتی تجربات کے امتزاج سے تشکیل پایا ہے۔ وہ پوری زندگی اس کوشش میں رہے کہ سائنس کو معلوم حدوں سے آگے لے جائیں، اور ساتھ ہی یہ بات کبھی نظر سے اوجھل نہ ہونے دی کہ سائنس کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سنہ 2025 میں یہ سفر عالمی شناخت میں منتج ہوا جب یاغی نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے سعودی شہری بن گئے۔ وہ سنہ 1999 میں مصری-امریکی سائنسدان احمد زویل کے بعد کیمسٹری میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے دوسرے عرب نژاد بنے۔
یاغی نے برطانوی آسٹریلوی سائنسدان رچرڈ روبسن اور جاپانی سائنسدان سوسومو کیٹاگاوا کے ساتھ کیمسٹری میں مشترکہ طور پر نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔
ان تینوں سائنسدانوں کو میٹل-آرگینک فریم ورکس، یا ایم او ایفز کی ترقی میں نصف صدی سے زیادہ کی شراکت کے لیے تسلیم کیا گیا، یہ چھید دار، سپنج نما مواد ہیں جن کے اندرونی خلا کاربن ڈائی آکسائیڈ ذخیرہ کرنے یا ہوا سے پانی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ 11 ملین سویڈش کرونر (تقریباً 10 لاکھ امریکی ڈالر) کا انعام بھی شیئر کریں گے۔
ایم او ایف سائنس اب 100 سے زیادہ ممالک میں پڑھائی جاتی ہے اور اس کو صنعتی پیمانے پر لاگو کیا جاتا ہے، جس کے استعمال میں موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف سے لے کر پانی کی قلت کے مسائل تک شامل ہیں۔
عمر ایم یاغی کا عالمی سائنس کی چوٹی تک پہنچنے کا سفر ایلیٹ لیبارٹریوں سے دور شروع ہوا۔ وہ 10 بچوں کے فلسطینی پناہ گزین خاندان میں بڑے ہوئے، جو اردن کے دارالحکومت عمان کے مضافات میں الوحدات پناہ گزین کیمپ کے قریب رہتا تھا۔
خاندان کے ایک کمرے کے گھر میں بجلی نہیں تھی۔ پانی صرف ہفتے میں ایک بار آتا تھا اورکبھی کبھی ہر دو ہفتے میں ایک بار، جس کی وجہ سے رہائشی ہر قسم کے برتن کو بھرنے کے لیے دوڑتے تھے اس سے پہلے کہ اگلی طویل انتظار کا وقت آتا۔
یاغی نے عرب نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ شاعرانہ خیال نہیں ہے کہ چونکہ مجھے بچپن میں پانی کے ساتھ مشکلات کا سامنا تھا، اس لیے میں نے مسئلہ حل کرنے کا عزم کیا۔‘
’میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے زیادہ ترغیب یافتہ تھا جن کی دنیا واقعی پرواہ نہیں کرتی تھی۔ یہ بنیادی سائنس ہے، جو علم کی سرحدوں تک جانے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے بہادر ہونے کے بارے میں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب آپ وہ عظیم دریافت کر لیتے ہیں، تو یہ اس سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے جتنا آپ نے ابتدائی طور پر معاشرے کے مسائل کا جواب دے کر حاصل کیا ہوتا۔‘
ان کا بچپن تین اہم جگہوں کے گرد گھومتا تھا: الوحدات کے قریب خاندان کا گھر، جہاں مویشی پالے جاتے تھے۔ ان کے والد مونس کی قصائی کی دکان، کنگ طلال سٹریٹ پر اور تاریخی جبل عمان ضلع میں پرائیویٹ بشپ سکول۔
یاغی خاندان کا اصل تعلق المسامیہ سے تھا، جو یروشلم اور یافا کے درمیان ایک فلسطینی گاؤں تھا، جو سنہ 1948 میں صیہونی نیم فوجی گروپ ہگانہ کے قبضے کے بعد خالی اور تباہ ہو گیا تھا۔
سنہ 2018 میں یاغی نے المسامیہ کا دورہ کیا، ان مخصوص مقامات کی تلاش کی جو نکبہ سے پہلے کی زندگی کی خاندانی کہانیوں میں محفوظ تھے۔
نقل مکانی کے بعد خاندان عمان میں آباد ہوا جہاں عمر یاغی سنہ 1965 میں پیدا ہوئے اور جہاں ان کے والد نے مویشیوں اور قصائی کا کاروبار شروع کیا، اس کاروبار نے ان کے بیٹے پر دیرپا اثر چھوڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ دکان میری زندگی میں نمایاں طور پر شامل تھی۔ وہاں میں نے محنت کی طاقت سیکھی۔ میں نے سیکھا کہ جب آپ کا دوسروں کے ساتھ لین دین ہوتا ہے تو آپ کو ایماندار ہونا چاہیے، ایمانداری اور محنت کی طاقت۔‘
یاغی نے اپنے والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کی حمایت کے لیے انتھک محنت کرتے دیکھا۔ ان کے والد صبح سویرے اٹھتے اور سورج غروب ہونے کے بعد تک کام کرتے، جبکہ ان کی والدہ تازہ روٹی پکاتی، کھانے تیار کرتی، گھر کی دیکھ بھال کرتی، اور گایوں کی دیکھ بھال کرتی۔
یاغی کہتے ہیں کہ ’میں شرمیلا اور خاموش تھا۔ اور اپنا ہوم ورک دوسرے بچوں سے الگ کر کے کرتا تھا اور وہ کھیل نہیں کھیلتا تھا جو وہ کھیل رہے تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنا زیادہ تر بچپن ایک کونے میں بیٹھ کر، پڑھنے یا لکھنے میں گزارا، اور اپنے ارد گرد ہونے والی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔‘
اگرچہ ان کے خاندان کو اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی ریفیوجیز ان دی نیئر ایسٹ کے ساتھ پناہ گزین کے طور پر رجسٹر کیا گیا تھا، ان کے والد نے اپنے بچوں کو یو این آر ڈبلیو اے سکولوں میں داخل کرنے کے خلاف فیصلہ کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم یو این آر ڈبلیو اے سکولوں میں نہیں گئے کیونکہ میرے والد کو محسوس ہوا کہ انہیں ہمارے سکول کی کارکردگی کی باقاعدہ رپورٹنگ کی ضرورت ہے۔‘ یو این آر ڈبلیو اے صرف ایک ٹرم میں ایک بار رپورٹ فراہم کرتا تھا جو ان کے والد کی دلچسپی کے لیے بہت کم تھی۔
بشپ سکول میں یاغی نے انگریزی اور تھوڑی بہت فرانسیسی کے ساتھ ساتھ ریاضی اور سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ریاضی اور سائنس وہ موضوعات تھے جن میں میرے والد بالکل چاہتے تھے کہ ہم بہت اچھا پڑھیں۔‘
10 سال کی عمر میں سکول کی لائبریری میں مالیکیولر ڈرائنگز کے ساتھ ایک اتفاقی تعارف نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ ان کی خوبصورتی اور اسرار سے مسحور ہو گئے، بعد میں یہ سیکھا کہ یہ شکلیں تمام مادے، جاندار اور غیرجاندار کی بنیادی تعمیراتی بلاکس بناتی ہیں۔
سنہ 1980 میں صرف 15 برس کی عمر میں یاغی اکیلے امریکہ چلے گئے۔ ٹرائے، نیویارک میں ہڈسن ویلی کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے انگریزی، سائنس اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔
خاندان کی بچت تقریباً نو ہزار ڈالر تقریباً دو برس ان کے اخراجات کے کام آئی۔ زندہ رہنے کے لیے، انہوں نے سپر مارکیٹوں میں عجیب و غریب ملازمتیں کیں اور ساتھی طلبا کو ریاضی میں ٹیوشن دی۔
اگرچہ وہ انگریزی پڑھ اور لکھ سکتے تھے، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ وہ امریکی لب و لہجے سے ناواقف ہیں۔
انہوں نے زبان میں خود کو غرق کر دیا، خبریں دیکھیں اور سوپ اوپیرا، ہم جماعتوں سے بات کی، ہر روز اخبار کی کم از کم ایک مکمل سٹوری پڑھی۔ یہی نہیں بلکہ لغت بھی چھانی جو وہ عمان سے لائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’اخبار میں موجود زیادہ تر الفاظ اس لغت میں نہیں تھے، لیکن میں کم از کم کچھ نئے الفاظ سیکھنے میں کامیاب ہو گیا۔‘ تین سے چھ ماہ تک انہوں نے امریکی انگریزی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
سنہ 1985 میں انہوں نے سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ایٹ البانی سے کیمسٹری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ پانچ برس بعد انہوں نے یونیورسٹی آف الینوائے اربانشیمپین سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مشیگن اور یو سی ایل اے میں تعلیمی تقرریوں کے بعد یاغی سنہ 2012 میں یو سی برکلے میں شامل ہوئے، جہاں وہ جیمز اور نیلٹی ٹریٹر چیئر کے حامل ہیں۔
وہ برکلے گلوبل سائنس انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں اور انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، اور برطانیہ سمیت 15 ممالک کے طلبا کو پڑھایا ہے۔
سنہ 1995 میں یاغی نے ’میٹل-آرگینک فریم ورک‘ کی اصطلاح وضع کی تاکہ کرسٹل لائن ڈھانچے کی وضاحت کی جا سکے جو اپنے اندرونی خلا میں مہمان مالیکیولز کی میزبانی کرنے کے قابل ہیں جبکہ 300 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کر سکتے ہیں۔
چار برس بعد انہوں نے ایم او ایف-5 متعارف کرایا، جو اب اس میدان میں ایک کلاسک سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 2003 تک انہوں نے یہ مظاہرہ کیا تھا کہ ایم او ایفز کو عقلی طور پر ترمیم کیا جا سکتا ہے، ایک پیش رفت جس نے ان کی عملی استعداد کو کھول دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 2.1 ارب لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے، جن میں 106 ملین لوگ غیرمحفوظ ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
سنہ 2018 کے بعد یاغی نے کاروباری سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دینا شروع کی۔ انہوں نے Atoco نامی کمپنی قائم کی جو ہوا سے پانی حاصل کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO₂) کو جذب کرنے پر کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے H2MOF کی مشترکہ بنیاد رکھی، جو ہائیڈروجن کو محفوظ کرنے پر کام کرتی ہے، اور WaHa Inc. بنائی، جو مشرقِ وسطیٰ میں پانی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
یاغی کے مطابق اس وقت توانائی کی بچت کرنے والے ایم او ایف ماڈلز روزانہ تقریباً 100 لیٹر پانی پیدا کر سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ مقدار دو ہزار لیٹر روزانہ تک پہنچ سکتی ہے۔
یاغی نے کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پانی کی فراہمی میں ایک بڑا کردار ادا کرے گی، نہ صرف خشک علاقوں میں بلکہ دنیا کے اُن علاقوں میں بھی جہاں پانی تو موجود ہے، مگر وہ صاف اور پینے کے قابل نہیں۔
ان کی کامیابیوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی ہے۔ انہیں سنہ 2015 میں کیمیا کے لیے کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز ملا، اور سنہ 2021 میں کنگ سلمان نے انہیں ریٹیکولر کیمسٹری اور نینومیٹریلز میں ان کی خدمات کے لیے سعودی شہریت دی۔
وہ KACST-UC برکلے سینٹر آف ایکسیلنس فار نینومیٹریلز فار کلین انرجی ایپلیکیشنز کے شریک ڈائریکٹر بھی ہیں اور KACST کے صدر کو مشورے دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سعودیوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے، اور انہوں نے مجھ پر سعودی شہریت عطا کرنے کی مہربانی کی۔ میں ان کے ساتھ تعاون کرتا ہوں۔ ایک سائنسدان کے طور پر میرا واحد مقصد انسانیت کی خدمت کرنے والے مسئلے کو حل کرنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنی فلسطینی شناخت پر بہت فخر کرتا ہوں۔ میں اردن میں پیدا ہوا اور بڑا ہوا۔ میں امریکی شہری بن گیا۔ امریکیوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔‘
یاغی نے MOF-5 کا ایک ماڈل نوبیل انعام کے میوزیم کو عطیہ کیا ہے۔ وہاں اسے احمد زویل کے سائنسی آلے کے ساتھ رکھا جائے گا، جسے فیمٹو کیمسٹری کا آلہ کہا جاتا ہے۔
یہ آلہ دکھاتا ہے کہ احمد زویل کس طرح انتہائی مختصر وقت میں کیمیائی عمل کو دیکھتے اور محفوظ کرتے تھے۔ یہ وقت فیمٹو سیکنڈ کہلاتا ہے، جو اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کو 32 ملین سال کے برابر سمجھا جائے، تو فیمٹو سیکنڈ اسی ایک سیکنڈ کے برابر ہوگا۔
یہ عطیہ یاغی کو ان سینکڑوں نوبل انعام یافتگان میں شامل کرتا ہے جنہوں نے سنہ 2001 میں میوزیم کی بنیاد کے بعد سے نوادرات کا تعاون کیا ہے، اس میوزیم کی سنہ 1901 سے شروع ہونے والے نوبیل انعام کی صد سالہ تقریب کے موقع پر بنیاد رکھی گئی تھی۔
یاغی کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے اہم، ایک سائنسدان کا مقصد علم کو سطح کو آگے بڑھانے والے سوالات کا جواب دینا ہے۔‘
’مجھے بنیادی تحقیق بہت پسند ہے کیونکہ اس میں انسان کو سوچنے اور سوالات کے جواب تلاش کرنے کی آزادی ملتی ہے۔ جب آپ کسی علمی مسئلے کو حل کر لیتے ہیں، تو اس سے معاشرے کے لیے بہت سے فائدوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔‘

 

شیئر: