Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی پہلی گرفتاری کب، کیوں اور کیسے ہوئی؟

عمران خان کی سیاسی زندگی میں گرفتاری  کا یہ دوسرا موقع ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا۔
انہیں القادر ٹرسٹ کے مالی معاملات پر درج  مقدمے میں حراست میں لیا گیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی زندگی میں گرفتاری  کا یہ دوسرا موقع ہے۔ ان کی پہلی گرفتاری 14 نومبر 2007 کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ہوئی تھی۔
یوں وہ پاکستان کے ان سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں مختلف الزامات میں جیل میں رکھا گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، محمد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد گرفتار ہوئے۔
موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کا شمار ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے جیل کاٹ چکے ہیں۔
پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے تین نومبر دو ہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی ۔اس اقدام کی مخالفت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
عمران خان کی دونوں گرفتاریاں ہنگامہ خیز حالات میں اور ان کے گھر سے دور ہوئی۔
انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے پولیس اور رینجرز نے گرفتار کر کے نیب  راولپنڈی آفس منتقل کیا ہے۔
ان کی پہلی گرفتاری اس سے زیادہ ہنگامہ خیز اور سنسنی خیز واقعات کے بعد عمل میں آئی تھی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اپنی جماعت کے طلبہ کی دعوت پر ملک میں ایمرجنسی کے خلاف سٹوڈنٹس سے خطاب کرنے گئے تھے۔
ان دنوں پنجاب یونیورسٹی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اثر تھی۔ جمعیت کے طلباء نے انہیں زبردستی یونیورسٹی میں محصور کر دیا۔ جہاں سے بعد میں پولیس نے انہیں تحویل  میں لیا تھا۔
عمران خان کی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘ ان کی پہلی گرفتاری اور اس سے جڑے واقعات اور تفصیلات بیان کرتی ہے۔
گھر کی دیوار پھلانگ کر فرار   
حالیہ عرصے میں لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر پولیس نے ان کی گرفتاری کی متعدد کوششیں کیں ۔مگر انہیں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مزاحمت نے گرفتاری سے محفوظ رکھا۔
عمران خان نے اپنی کتاب میں 2007 میں زمان پاک پر پولیس کے چھاپے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جب وہ اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر پولیس کی دسترس سے دور نکل گئے تھے۔
اس روز وہ لاہور میں لمز کے طلباء سے خطاب کرنے کے بعد رات گئے  گھر پہنچے تھے ۔پولیس ان کے گھر میں گھس آئی ۔انہوں نے پولیس سے وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا۔
پولیس اہلکار وارنٹ کا بندوبست کرنے گئے تو عمران خان کو ان کے ایک اخبار نویس دوست نے مطلع کیا کہ انہیں گھر میں نظر بند کرنے کے بجائے جیل منتقل کیا جائے گا۔
عمران خان لکھتے ہیں کہ ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے چند منٹ تھے ۔انہوں نے اپنے بھانجے کو بھاگنے کا راستہ دیکھنے کا کہا۔

عمران خان کی پہلی گرفتاری کے دوران انہوں نے آٹھ دن سلاخوں کے پیچھے بسر کیے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہیں بتایا گیا کہ پولیس نے مکان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔مگر زمان پارک میں واقع باغ کے ساتھ واقع دس فٹ دیوار کا ایک حصہ پولیس کی نظروں سے اوجھل تھا۔
عمران خان پچھلے صحن سے دیوار طرف گئے اور اپنے بھانجے کی مدد سے دیوار پھلانگ کر پڑوسیوں کے باغ میں اُتر گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں کس نے گرفتار کروایا؟
سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے وقت اپنی گرفتاری کا خدشہ تھا۔ یہ خدشہ انہوں نے منگل کی صبح ایک ویڈیو پیغام میں ظاہر کیا تھا۔
اسی طرح سنہ 2007 میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرنے گئے تھے تو انہیں اپنی گرفتاری کے امکانات کا اندازہ تھا۔ وہ خاموشی اور رازداری سے ایک رات پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ گئے تھے۔ وہ رات انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے ایک حامی پروفیسر کے ہاں گزاری۔
عمران خان کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ ان کی گرفتاری عالمی میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں اس طرح ہو کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو سکے۔ اس کام کے لیے یونیورسٹی سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ عمران خان کے طلباء سے خطاب سے خائف  تھی۔ اس کے طلباء نے عمران خان کو گھیر لیا اور انہیں دھکے دیتے ہوئے ایک کمرے میں محصور کر دیا۔ یہاں سے انہیں پولیس کے حوالے کیا جو انہیں جیل لے گئی۔
اپنی کتاب میں عمران خان لکھتے ہیں کہ کبھی شاندار تنظیم اور نظریات اس تنظیم کی پہچان تھے مگر اب ہر کوئی ان سے خوفزدہ تھا۔ یہاں تک کہ نہ تو جماعت اسلامی اور نہ ہی حکومت ان پر قابو پا سکتی تھی۔
اسی کے ساتھ انہوں نے اپنی گرفتاری جمعیت کے علاوہ اس دور کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے کردار کا حوالہ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’بعد میں مجھے بتایا گیا کہ چوہدری پرویز الہی کی صوبائی حکومت کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے مجھ پر حملہ کرنے کے لیے ان (طلبہ تنظیم) کے ایک لیڈر کو بھاری رقم ادا کی تھی۔‘


جیل میں عمران خان کے روز و شب
گرفتاری کے بعد عمران خان کو کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا۔ جہاں انہیں ایک الگ  کمرے میں رکھا گیا ۔انہیں روزانہ باہر صحن  میں چہل قدمی کرنے کی اجازت بھی دی گئی ۔ان کے بقول جیل کا عملہ ان کے ساتھ بہت  محبت سے پیش آیا۔
’زندان میں شام ہوتے ہی میرے کمرے کا دروازہ مقفل کر لیا گیا ۔دوسری رات تین بجے جب میں گہری نیند سو رہا تھا تو دروازہ زور سے بجایا گیا۔ ایک پولیس آفیسر سامنے کھڑا تھا ۔نہایت بدتمیزی سے اس نے کہا اپنا سامان باندھ لو اور جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘
یہ بیان عمران خان کے کوٹ لکھپت سے ڈیرہ غازی خان جیل منتقلی کے بارے میں ہے۔
انہیں ایک ٹرک  کے پچھلے حصے میں سوار کروایا گیا۔ جہاں وہ رات کی تاریکی میں نو گھنٹے تک لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھ کر سفر کرکے ڈیرہ غازی خان پہنچے۔
نیب کے موجودہ قوانین کی رو سے گرفتار شدگان کو 14 روز تک  حراست میں رکھا جا سکتا ہے ۔اسی طرح نیب مختلف مقدمات میں مطلوب افراد کو اپنی جیلوں میں قید رکھتا ہے۔
عمران خان کی پہلی گرفتاری کے دوران انہوں نے آٹھ دن سلاخوں کے پیچھے بسر کیے۔
جیل میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جیل ایک گندی اور تنگ جگہ تھی۔ایک کمرے میں دس سے پندرہ قیدی ٹھونسے ہوتے تھے۔
انہیں غروب آفتاب کے وقت سلاخوں کے پیچھے نظر بند کردیا جاتا۔ وہ اس خدشے کی بناء پر بہت کم کھانا کھاتے کے وہاں ورزش کی سہولت مہیا نہ تھی ۔ان کے مطابق اس دوران وقت کاٹنے کو نہ کٹتا تھا ۔لگتا تھا کہ بوریت مجھے مار دے گی۔
عمران خان نے اسیری کے ایام میں جیل کے دیگر قیدیوں سے ان کی کہانیاں بھی سنتے رہے ۔جس میں ان کا کمرہ صاف کرنے والے ایک قیدی کی داستان وہ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں۔
انھوں نے جیل میں قیدیوں کی ذہنی اور جسمانی حالت اور انتظامیہ کے  رشوت ستانی کے رویے  کا ذکر بھی کیا ہے۔
بھوک ہڑتال پر ندامت   
عمران خان نے مشرف حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جیل میں بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ اس فیصلے کو اپنی غلطی قرار دیتے ہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ پانی تک نہ پینے سے وہ اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ چل پھر بھی نہ سکتے تھے۔ ’اب بھوک ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ شام کے آٹھ بجے تھے جب جیلر نمودار ہوا اور کہا ’آپ آزاد ہیں۔‘
عمران خان کے اپنے الفاظ میں ان کی رہائی بھوک ہڑتال ختم کرنے کا باعث بھی بنی۔
سابق وزیراعظم رہنے والے عمران خان نے جیل کے دنوں کے تجربات بیان کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ ایسا امتحان درپیش ہوا تو وہ کم از کم بھوک ہڑتال نہیں کریں گے۔
عمران خان کی دوسری گرفتاری پہلی سے بہت سے حوالوں سے مختلف ہے۔ اب ان کی حیثیت ملک کے سابق وزیراعظم کی ہے۔ اسی طرح وہ ملک کی بڑی اور پاپولر جماعت کے رہنما بھی ہیں۔
اس بار گرفتاری کے بعد عمران خان کو کہاں اور کیسے رکھا جائے گا؟ اسی طرح اب کی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے وہ کتنا عرصہ گزارتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ 

شیئر: