Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب امن ہوگا تب ہی آئین پر عمل ہوگا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’بہت تشویش ناک صورتحال ہے کہ سیاسی قوتیں تصادم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت 23  مئی تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں اور مذاکرات کو بحال کرنے پر زور دیا۔
پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب مذاکرات بحال کیوں نہیں کرائے۔ آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نظر ثانی کیس کی جلدی سماعت کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اب 14 مئی عملدرآمد کا وقت گزر چکا ہے۔ 14 مئی کے لیے حکم پر چودہ مئی کو ہی عمل ہونا تھا۔‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’بہت کوشش کر کے فریقین کو میز پر لایا تھا، فریقین میں کافی حد تک اتفاق رائے ہوچکا تھا۔ کچھ وقت اور مل جاتا تو شاید مسئلہ حل ہو جاتا۔‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کے دو افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تمام قیادت گرفتار ہے۔ ایسے ماحول میں کیا مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اب مذاکرات نہیں صرف آئین پر عمل چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ’مذاکراتی ٹیم کے ارکان کو رہا کرنے پر غور کریں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا۔ اس وقت بال اٹارنی جنرل آپ کی کورٹ میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت تشویش ناک صورتحال ہے کہ سیاسی قوتیں تصادم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔‘
 الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ’آپ نے تو پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ پہلے آپ نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں، سکیورٹی نہیں دی جا رہی، لیکن اب آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ہیں۔ ان نقاط پر پہلے بحث نہیں ہوئی، ہم نوٹسز جاری کر کے باقی فریقین کا موقف بھی سن لیتے ہیں۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے نظر ثانی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی درخواست کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’میرے خیال میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل کو تیاری کا موقع دینا چاہیے اور ان کو جواب دینے کی مہلت ملنی چاہیے۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومت غیر قانونی ہے اور اس وقت ملک کی پچاس فیصد آبادی پر غیر نمائندہ لوگ حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن جواب کے لیے مہلت مانگ رہا ہے۔ لیکن چودہ مئی کو انتخابات کے حوالے سے عدالتی احکامات پر کوئی حکم امتناع نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے احکامات فائنل ہیں، لیکن ہم اس وقت ایک معلق حالت میں ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر انتخابی ماحول پر امن نہیں ہوگا تو ایسے میں انتخابی نتائج کون تسلیم کرے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’جس طرح سے سیاسی قوتیں بشمول حکومت لڑائی کو بڑھاوا دے رہی ہیں وہ بہت افسوسناک ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، املاک کو جلایا جا رہا ہے اور اداروں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’امن پر فوکس کریں، باہر دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔ اللہ صبر کی ہدایت کرتا ہے مقابلے بازی کی نہیں۔ لوگ جنگلے پھلانگ رہے ہیں اور صوبائی حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔ جس طرح سے تشدد ہو رہا ہے بہت افسوسناک ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ لوگوں کے سروں میں گولیاں لگی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’انتخابات جمہوریت کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن اس کے لیے قانون کی حکمرانی چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ اخلاقی برتری کا معیار تلاش کریں۔ جب باہر انتشار ہو تو کون آئین پر عمل درآمد کرے گا۔ اگر ایک فریق اخلاقی برتری کے پائیدان پر کھڑا ہو تو عدالت دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا سکتی ہے۔‘
 بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس طرح سے گرفتاریاں کی گئیں اس سے مذاکرات کا امکان کم ہو گیا ہے۔
 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب فروری میں کارروائی کا آغاز ہوا تو اس وقت صرف ایک فریق آئین کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ 
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مذاکرات کا عمل کیوں رک گیا؟ اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ ’ہم مکالمے میں اتفاق رائے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔‘ اس پر چیف جسٹس بولے کہ پھر ایک اہم چیز ہو گئی۔ بیرسٹر علی ظفر بولے کہ پھر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ جس طرح سے احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا ساری قوم نے دیکھا۔
 اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا اس کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو مذاکرات کو جاری رکھوانا چاہیے، زبانی جمع خرچ نہیں ہونا چاہیے۔ زبان آپ کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ہم سیاسی معاملات کے بارے میں نہیں جاننا چاہتے۔ سپریم کورٹ پاکستان کے لوگوں کے لیے کام کرتی ہے۔‘

انہوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’جو دلائل آپ دینا چاہتے ہیں وہ وفاقی حکومت کو دینے چاہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

 انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بہتر صورتحال کی توقع کرنی چاہیے۔ وفاقی حکومت نے تو اس عدالتی کارروائی کو تسلیم ہی نہیں کیا۔‘
انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ کو نظر ثانی درخواست دائر کرنی چاہیے تھی۔ بیرسٹر علی ظفر کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے عمل درآمد کے اصرار پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں وقت دیں۔ اس وقت کسی کے پاس اخلاقی برتری نہیں۔ آپ اپنے رویے سے ثابت کریں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو یاد دہانی کروائی کہ اس عدالت نے یکم مارچ کو 90 روز جبکہ چار اپریل کو 14 مئی کو انتخابات کرانے کا فیصلہ دے رکھا ہے اور یہ فیصلہ نافذ العمل ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ مشینی انداز میں کام نہیں کرتی۔ لوگوں کا رویہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس رویے کو دیکھنا ہے۔‘
چیف جسٹس نے جہاں پرتشدد احتجاجات پہ اظہار افسوس کیا وہیں معیشت کی زبوں حالی کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’کل میں موٹر وے پر تھا اور موٹروے بالکل خالی پڑا تھا۔ عام حالات میں موٹروے بھری ہوتی ہے۔‘
 چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت قوم میں شدید تقسیم موجود ہے، ایسے حالات میں اگر انتخابات ہو بھی گئے تو ان کے نتائج کون تسلیم کرے گا؟
 انہوں نے جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب امن ہو گا تب ہی آئین پر عمل درآمد ہو گا۔ 
عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت اگلے منگل تک ملتوی کر دی۔  

شیئر: