Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اکثر فلسطینی دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں ، آن لائن سروے

اسرائیل کی مسلسل دھمکیاں ​​امن مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجوہ ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
فلسطین میں نكبة (1948ء میں فلسطینی  المیہ)کی یاد کے 75 ویں سال  کے موقع پر آن لائن سروے میں آدھے سے زیادہ فلسطینی اب بھی اسرائیل-فلسطین تنازع کے جواب کے طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔
عرب نیوز/YouGov  آن لائن سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت اب یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کی نمائندہ نہ تو الفتح تنظیم ہے اور نہ ہی حماس جب کہ تین چوتھائی  کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے موجودہ فلسطینی قیادت ناتواں ہے۔

سروے میں فلسطینی قیادت میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ فوٹو ویکیپیڈیا

28 اپریل سے 11 مئی کے درمیان 953 فلسطینیوں سے آن لائن سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ نصف فلسطینی اب بھی دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں۔
فلسطینی اور اسرائیلی رہنماؤں کے درمیان 1993 میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اس حل پر اتفاق ہوا تھا لیکن دونوں جانب سے انتہا پسندی، تشدد اور مخالفت کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
دو ریاستی حل کے لیے مجموعی طور پر51 فیصد کی حمایت کے ساتھ عمر رسیدہ فلسطینیوں نے اس کو زیادہ اہمیت دی ہے-
سروے میں 45 سال سے زائد عمر کے 63 فیصد نےحمایت کی ہے جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر کے 42 فیصد نے اس سے اتفاق کا اظہار کیاہے۔
اس سروے کو متعدد اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر سمجھا جا رہا ہے حالانکہ ہر پانچ میں سے ایک مشترکہ اسرائیلی- فلسطینی وفاقی ریاست کے قیام کے حق میں ہے۔

عمر رسیدہ فلسطینیوں نے دو ریاستی حل کو اہمیت دی ہے- فوٹو ویکیپیڈیا

ایک اور متبادل کے طور پر 25 سے 34 سال کی عمر کے افراد کی تعداد جو اسرائیلی ریاست کی شہری بننے کی حمایت کرتی تھی ان کی تعداد 13 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد ہو گئی ہے۔
سروے میں 11 فیصد جواب دہندگان نے شہریت حاصل کیے بغیر مکمل طور پر اسرائیلی زیر تسلط علاقے میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
سروے میں فلسطینی قیادت میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کیا گیا ہے اور 63 فیصد فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ  ہم فلسطینی تنظیم حماس یا الفتح میں سے کسی کو بھی نمائندہ جماعت محسوس نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ اس وقت چار میں سے صرف ایک فلسطینی کا خیال ہے کہ ہماری قیادت امن تصفیے کے لیے اسرائیلی قیادت سے بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ابرہام معاہدے کے حوالے سے فلسطینی منقسم نظر آتے ہیں۔ فوٹو ویکیپیڈیا

فلسطین نژاد امریکی صحافی اور مصنف رمزی بارود نے کا تجزیہ یہ کہتاہے کہ فلسطینی برسوں پہلے اپنی قیادت پر اعتماد کھو چکے ہیں۔
اعتماد کا یہ فقدان اندرونی طور پر فلسطینی اتھارٹی کی مقامی بدعنوانی سے جڑا ہوا ہے، بلکہ موجودہ فلسطینی قیادت کی واحد بامعنی سیاسی فتح حاصل کرنے میں مکمل ناکامی سے بھی منسلک ہے۔
اس کے علاوہ  اسرائیل میں موجودہ دائیں بازو کی حکومت کی تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی آمادگی کے بارے میں بھی اسی طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں-
86 فیصد فلسطینیوں کا یہ خیال ہے کہ موجودہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی انتظامیہ امن معاہدے کے لیے سنجیدہ نہیں۔

52 فیصد کی رائے ہے امریکی اقدام نے اسرائیل کو جارحانہ بنایا ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

سروے میں 80 فیصد جواب دہندگان کی طرف سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات میں چین کی حالیہ کامیاب ثالثی کے بعد اسرائیل-فلسطین تنازع کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
مزید برآں اسرائیل کی مسلسل دھمکیوں اورغیر قانونی بستیوں کو سابقہ ​​امن مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجوہات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ابرہام معاہدے کے حوالے سے اپنے رویوں پر فلسطینی منقسم نظر آتے ہیں، 52 فیصد کی رائے ہے کہ امریکہ کی جانب سے کئے گئے اقدام نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف مزید جارحانہ بنا دیا ہے لیکن 43 فیصد کا خیال اس کے برعکس ہے۔
سروے میں 40 فیصد سے زیادہ افراد نے اقتصادی ترقی کو سرفہرست رکھا ہے اور فلسطینیوں کی اکثریت اس چیز پر متفق ہے کہ مستقبل میں کسی بھی آزاد فلسطینی ریاست کی ترجیح معیشت ہونی چاہیے۔

شیئر: