Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 خرطوم میں جاری لڑائی میں شدت، 10 لاکھ افراد بے گھر

سوڈانی عوام فقط تن کے کپڑوں کے ساتھ اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ فوٹو روئٹرز
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے جنوبی علاقوں میں فوجی کیمپ کے قریب جمعرات کے روز جھڑپیں تیز ہو گئی ہیں اور فضائی حملے بھی جاری ہیں۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ آپسی لڑائی میں تقریباً 10 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور خرطوم کے باشندوں کو زندہ رہنے کے لیے کافی تگ ودو کا سامنا ہے۔
عینی شاہدین کی جانب سے مزید بتایا گیا ہے کہ سوڈانی فوج فضائی حملوں میں پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کو نشانہ بنارہی ہے۔فضائی حملوں کی آوازیں جنوبی خرطوم کے کئی رہائشی محلوں میں سنی گئیں۔
خرطوم میں طیبہ کیمپ کے قریب  فوج  کا ساتھ دینے والی پولیس ریزرو فورس کی بھی ریپڈ سپورٹ فورسز  سے جھڑپیں جاری ہیں۔
سوڈانی فوج بھاری توپ خانے کے علاوہ فضائی حملوں سے ریپڈ سپورٹ فورسزکو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ خرطوم اور ملحقہ شہروں بحری اور ام درمان میں 15 اپریل کو ہونے والی لڑائی کے بعد ریپڈ سپورٹ فورسز بڑے علاقے میں پھیل گئی تھی۔
خرطوم کے رہائشی 35 سالہ صلاح الدین عثمان نے بتایا ہے کہ فضائی بمباری اور جھڑپیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، ہمارے لیے گھروں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور ہمارے پاس راشن بھی ختم ہے۔
عثمان کا کہنا ہےکہ ہمیں یہ بھی خوف لاحق ہے کہ اگر گھر چھوڑتے ہیں تو شہر میں موجود مختلف گروہ سب کچھ لوٹ کر لے جائیں گے، ہم خوف اور  کسمپرسی کے  ڈراؤنے خواب میں زندہ ہیں۔

 فضائی حملوں سے آر ایس ایف کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ فوٹو  روئٹرز

مغربی سوڈان کے علاقے دارفور اور شمالی کوردوفان ریاست اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی لڑائی کی آگ کی چنگاریاں پہنچ چکی ہیں لیکن اقتدار کی جنگ دارالحکومت تک محدود ہے۔
سوڈانی فوج کے سربرارہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر محمد حمدان دگالو (ہمدتی)لڑائی کے دوران مسلسل دارارلحکومت میں ہی موجود ہونے کا غالب امکان ہے۔
بدھ کو فوج کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وسطی خرطوم کے آرمی ہیڈ کوارٹر میں جنرل عبدالفتاح وردی میں ملبوس ہیں اور فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہے  ہیں۔
تازہ ترین اندازے کے مطابق سوڈان کے اندر 8 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور 220000 سے زیادہ ہمسایہ ممالک ہجرت کر گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سوڈان کی کم از کم چھ ریاستوں میں 4.9 ملین افراد چاڈ، مصر اور جنوبی سوڈان کی طرف جانب کوچ کر رہے ہیں۔

خرطوم اور ملحقہ شہروں میں ریپڈ سپورٹ فورسز پھیل گئی ہیں۔ فوٹو روئٹرز

ڈبلیو ایف پی کے مشرقی افریقہ کے ڈائریکٹر مائیکل ڈنفورڈ کا کہنا ہے کہ سوڈان میں جاری لڑائی میں عوام کو فقط تن کے کپڑوں کے ساتھ گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اور یہاں کی معاشی حالت تباہ کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے گذشتہ روز بدھ کو بیان جاری کیا ہے کہ سوڈان کی 46 ملین آبادی میں سے نصف سے زیادہ کو انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے 3 بلین ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے۔
قبل ازیں برہان اور حمدتی 2019 میں ایک عوامی بغاوت میں طاقتور سربراہ عمر البشیر کی معزولی کے بعد سوڈان کی حکمران کونسل میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ انہوں نے دو سال بعد بغاوت کا آغاز کر دیا جب اقتدار عام شہریوں کو سونپنے کی آخری تاریخ قریب آئی اور انہوں نے اپنی اپنی فورسز کو لڑائی کے لیے متحرک کرنا شروع کر دیا۔
دریں اثناء جدہ میں امریکہ اور سعودی عرب کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات اب تک جنگ بندی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

شیئر: