Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کے پی میں حکمران اتحاد میں اختلافات، ’ایسا لگ رہا ہے صوبے میں گورنر کی حکومت ہے‘

گورنر غلام علی نے کہا کہ ’میں اپنا آئینی کردار ادا کر رہا ہوں اگر میں عوام میں جاتا ہوں تو یہ کوئی غیرآئینی اقدام نہیں۔‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)
صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جمیعت علمائے اسلام ف میں صوبے میں اختیارات کے حوالے سے اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن میں نظریاتی ورکرز گروپ کے نام سے ایک الگ گروپ بن گیا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا غلام علی پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور نگران حکومت کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا جانے لگا ہے۔ پہلے تو یہ تنقید پارٹی کی اندرونی میٹنگز میں ہوا کرتی تھی مگر اس بار تمام جماعتوں کے سربراہان کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
گورنر غلام علی پر تنقید کسی اور نے نہیں بلکہ سیاسی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے گئی ہے۔ 25 مئی کو پشاور کے دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے گورنر پر تنقید کی۔
اس معاملے پر گورنر غلام علی سے ان کا موقف جاننے کے لیے اردو نیوز نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اپنا آئینی کردار ادا کر رہا ہوں اگر میں عوام میں جاتا ہوں تو یہ کوئی غیرآئینی اقدام نہیں، میں ایک عوامی بندہ ہوں۔‘
گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ’اگر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا غلط ہے تو یہ میری غلطی ہے، باقی میرے کسی کے ساتھ کوئی اختلافات نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہوں، اگر کسی کی شکایت ہے تو اسے بھی حل کریں گے۔ صوبے کے تمام اختیارات نگران وزیراعلٰی کے پاس ہیں، میں تو آئین کا محافظ ہوں۔‘
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمر بلور نے اس معاملے پر رائے دینے سے معذرت کر لی۔
’ایسا لگ رہا ہے صوبے میں گورنر کی حکومت ہے‘
ایمل ولی کی گورنر پر تنقید کے حوالے سے پشاور کے سینیئر صحافی سید وقاص شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران اے این پی رہنما ایمل ولی خان، سابق وفاقی وزیر حاجی غلام بلور اور دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین موجود تھے۔
’ملاقات کے دوران ایمل ولی خان نے وزیراعظم کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور موقف اپنایا کہ ایسا لگ رہا ہے صوبے میں گورنر کی حکومت ہے کیونکہ ہماری تو یہاں کوئی سننے کو تیار نہیں۔‘

ایمل ولی نے وزیراعظم سے ملاقات میں کہا کہ ’بیوروکریسی بھی ہماری بات نہیں مانتی ہم اپنا شکوہ کس سے کریں۔‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

ایمل ولی نے کہا کہ ’نگران کابینہ میں شامل افراد کون ہیں؟ اور کس کے کہنے پر لائے گئے ہیں؟ کیونکہ ان پر صرف گورنر کا حکم چل رہا ہے۔‘
اے این پی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اتحادی ہیں تو بتایا جائے کہ عوامی نیشنل پارٹی کو کوئی کیوں سن نہیں رہا۔ بیوروکریسی بھی ہماری بات نہیں مانتی ہم اپنا شکوہ کس سے کریں۔‘
سید وقاص شاہ کے مطابق ’اے این پی اور جمیعت علمائے اسلام ف کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی ہے۔ اگر نگران کابینہ میں دیکھا جائے تو اے این پی کے دو وزرا شامل ہیں جبکہ جے یو آئی کے بیشتر حمایتی شامل کیے گئے ہیں یا پھر ان کا تعلق گورنر غلام علی سے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نگران وزیراعلٰی کے سارے کام گورنر غلام علی نے سنبھالے ہوئے ہیں اور کابینہ اراکین بھی سارا دن گورنر ہاوس میں موجود رہتے ہیں۔ دوسری جانب سابق اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے بیوروکریسی کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔‘
’مسلم لیگ ن نے خیبر پختونخوا جے یو آئی کے حوالے کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اے این پی کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے اندر دھڑے بندی

خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن میں بھی اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام سے اختلافات کی بنا پر نظریاتی ورکرز نے مسلم لیگ ن نظریاتی ورکرز گروپ تشکیل دے دیا ہے۔
نظریاتی گروپ کے رہنما ارباب خضر حیات نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ امیر مقام اور ان کی کابینہ کو فارغ کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے جائیں۔
’جب تک یہ مفاد پرست مسلم لیگ کے عہدوں پر موجود ہیں نظریاتی ورکرز کا استحصال ہوتا رہے گا۔‘

صوبائی صدر امیر مقام سے اختلافات کی بنا پر نظریاتی ورکرز نے مسلم لیگ ن نظریاتی ورکرز گروپ تشکیل دے دیا ہے۔ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

انہوں نے کہا کہ مرکز میں اپنے رہنماؤں سے درخواست کرتے ہیں کہ صوبے میں پارٹی کو مزید تباہ ہونے سے بچایا جائے۔
مسلم لیگ نظریاتی گروپ کے رہنما ارباب خضرحیات کے مطابق تمام تر صورتحال سے میاں محمد نواز شریف کو خط لکھ کر آگاہ کر دیا ہے۔ امید ہے کہ جلد اس کا مثبت جواب دیا جائے گا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہمارے تحفظات کو نظر انداز کیا گیا تو ہم پارٹی کے اندر خود الیکشن کروائیں گے۔‘
’ہم مسلم لیگ کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں مگر موجودہ صوبائی قیادت اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر تُلی ہوئی ہے۔‘

شیئر: