Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آفس میں پراسرار طور پر ہلاک ہونے والا نوجوان کون تھا؟

پولیس کے مطابق نوجوان کو طبی امداد دی گئی تھی لیکن جانبر نہ ہو سکا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پیر کے روز لاہور پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) آپریشنز کے دفتر میں ایک نوجوان کی پُراسرار موت کی خبر سامنے آئی تھی.  
ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس نوجوان کی لاش پولیس آفیسر کے دفتر کے واش روم سے ملی تھی اور اس کی شناخت اور موت کی وجہ کے بارے میں علم نہیں ہو سکا تھا۔ 
خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس نوجوان کی موت کسی سازش کا نتیجہ ہے یا تشدد کے باعث موت واقع ہوئی ہے۔  
تاہم منگل کے روز اعلٰی پولیس حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ معمہ حل کر لیا گیا تھا اور فوت ہونے والے نوجوان کی لاش کی شناخت گذشتہ روز ہی کر لی گئی تھی۔  
پولیس کے مطابق  یہ نوجوان لاہور کے علاقے جین مندر کا رہائشی تھا اور اس کی موت دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ 
ڈی آئی جی آپریشنز صادق علی ڈوگر کے ترجمان آغا احتشام حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نوجوان کا نام متین خان ولد منصور خان تھا اور یہ اپنے بہنوئی کے ساتھ کاغذات کی تصدیق کروانے کے سلسلے میں پولیس کے دفتر آیا تھا۔‘ 
’بیت الخلا جانے کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے اور اس کی موت واقع ہوگئی۔‘
 اس بارے میں لاہور کے سینیئر کرائم رپورٹر جہانگیر خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ بیت الخلا سے واپس آنے کے بعد متین خان کو قے آئی تھی۔
جہانگیر خان کے مطابق ’ابتدائی تفتیش میں نوجوان کے قتل یا تشدد کی وجہ سے ہلاک ہونے کے ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی اس بات کی تصدیق ہو سکی ہے کہ انہیں کوئی مضر صحت چیز کھلائی گئی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ہو۔‘ 

ڈی آئی جی کے دفتر میں ہلاک ہونے والا نوجوان جین مندر کا رہائشی تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم جہانگیر خان کے مطابق اس بارے میں حتمی تفصیلات اور موت کی وجہ کی تصدیق تین دن بعد آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ہی ہو گی۔ 
واضح رہے کہ اس واقعے کی اطلاعات آنے کے بعد ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ متوفی کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ 
اردو نیوز کے استفسار پر پولیس نے بتایا کہ اس ہلاکت کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی کیونکہ متوفی کے ساتھ وارث موجود تھا اور انہوں نے کسی شک کا اظہار نہیں کیا۔ 
اس بارے میں جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات جن میں موت کے پیچھے قتل کا شبہ نہ ہو اور ورثا اس کے متعلق کوئی قانونی کارروائی نہ کرنا چاہتے ہوں تو فوت ہونے والے شخص کی لاش مجسٹریٹ کے سامنے بیانات کے بعد رشتہ داروں کے حوالے کر دی جاتی ہے اور لاش لاوارث ہونے کی صورت میں امانتاً دفنا دی جاتی ہے۔ 

شیئر: