Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عبایہ پہننے والی طالبات کو سکول میں نہ جانے دینا مذہبی آزادی پر حملہ ہے‘

محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ’آئین ہمیں اپنی مرضی سے کپڑے پہننے کا حق دیتا ہے۔‘ (فوٹو: پی ٹی آئی)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے عبایہ پہن کر آنے والی طالبات کو سکول میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق جمعرات کو ریناواری کے وشوا بھارتی سکول کی انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر عبایہ پہن کر آنے والی طالبات کو سکول میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا جس پر طالبات نے احتجاج بھی کیا۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ سکول انتظامیہ کا اقدام مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔
’یہ ہمارا ذاتی حق ہے کہ خود فیصلہ کریں کہ کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔ ہمیں ایسا کوئی بھی کام کرنے پر مجبور نہ کریں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم جو بھی چاہیں پہنیں یا کھائیں۔‘
محبوبہ مفتی کے مطابق ’ہم نے ایسے واقعات پہلے کرناٹک میں دیکھے اور اب ایسا کشمیر میں بھی کیا جانے لگا ہے۔ ہم اس کو کسی طور قبول نہیں کریں گے اور اس کے خلاف سخت ردعمل سامنے آئے گا۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’وہ اب داؤدی اور ویری جیسے اسلامی سکالرز کو ہراساں کر رہے ہیں۔ ایک روز قبل ہی سکالر رحمت اللہ کو نیشنل انٹیلیجنس ایجنسی (این آئی اے) کی جانب سے طلب کیا گیا۔ یہ سب ناقابل قبول ہے۔‘

طالبات نے سکول کے باہر احتجاج کیا۔ (فوٹو: ایچ ٹی)

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’اگر آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد صورت حال معمول کے مطابق ہے تو پھر کیوں این آئی اے اسلامی سکالرز کو طلب کر رہی ہے؟‘
وشوا بھارتی سکول کی انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف طالبات نے احتجاج بھی کیا۔
احتجاج میں شریک ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’عبایہ پہننے پر ہم کو سکول جانے نہیں دیا گیا اور گیٹ بند کر دیے گئے۔‘
میڈیا کو سکول انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ طالبات کو ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کا کہا گیا اور انتظامیہ کسی کے مذہبی عقائد یا حجاب کے خلاف نہیں ہے۔‘
رواں برس کے پہلے ماہ جنوری میں کرناٹک کے ایک کالج میں انتظامیہ نے حجاب پہننے پر مبینہ طور پر چھ طالبات کو داخل ہونے سے منع کیا تھا جس کے بعد ان کی جانب سے احتجاج بھی ہوا تھا۔

جنوری میں حجاب والی طالبات کو کالج میں داخل نہ ہونے دینے پر کرناٹک میں احتجاج ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

واقعے کے بعد کئی کالجوں کے طلبا نے احتجاجاً زعفرانی رنگ کے سکارف پہن کر کلاسوں میں جانا شروع کر دیا تھا جس کے بعد یہ احتجاج کا سلسلہ ریاست کرناٹک کے کئی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔
اس کے جواب میں کرناٹک کی حکومت کا کہنا تھا کہ تمام طلبا و طالبات یونیفارم کی پابندی کریں اور معاملے کو ماہرین کی ایک کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے فیصلہ سامنے آنے تک حجاب اور سکارف پر پابندی لگا دی تھی۔
پانچ فروری کو ایجوکیشن بورڈ نے سرکولر جاری کیا تھا کہ طلبہ صرف وہی یونیفارم پہن سکتے ہیں جو سکول انتظامیہ کی جانب سے منظورشدہ ہو اور مذہبی اظہار رکھنے والے کسی بھی لباس کی کالجز میں اجازت نہیں ہو گی۔

شیئر: