Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی سمگلروں کا کبھی کوئی نیٹ ورک ختم بھی ہوا؟

ایجنٹوں نے اٹلی بھجوانے  کے لیے 5 سے 7 ہزار ڈالر فی کس وصول کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
لیبیا سے یونان جاتے ہوئے سمندر میں غرق ہونے والی کشتی میں ایک بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی بھی ہے۔ اس حادثے نے حکومت کو غیرمعمولی طور پر متحرک کر دیا ہے اور انسانی سمگلروں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر دی ہے۔
ایف آئی اے لاہور ریجن کے ڈائریکٹر سرفراز ورک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہماری ٹیمیں اس وقت فیلڈ میں متحرک ہیں اور ہم تمام متاثرین سے رابطے میں ہیں، ابھی تک 47 خاندانوں سے ہمارا رابطہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک چار ایجنٹس کے نام سامنے آئے ہیں جن میں طلحہ شاہزیب، وقاص، ساجد محمود اور شبیر شامل ہیں۔ ’ان افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ کوئی پانچ ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔‘
پاکستان سے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ اسی سال فروری کے مہینے میں بھی اسی سمندر میں ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں 14 پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سرفراز ورک کہتے ہیں کہ ’اس واقعہ میں تین افراد کو گرفتار کیا تھا جو اس وقت بھی جیل میں ہیں۔‘
اصل مسئلہ یہاں کے ایجنٹ نہیں بلکہ وہ ایجنٹ ہیں جو یونان اور لیبیا بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں پر جو لوگ ان کے لیے کام کرتے ہیں وہ تو ’ڈس پوزایبل‘ ہوتے ہیں۔ وہ نئے بھرتی کر لیتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کو انٹرپول اور بین الاقوامی مدد سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔‘

کیا کبھی کوئی نیٹ ورک ختم بھی ہوا ہے؟

لاہور میں ایف آئی اے کی خصوصی عدالت نے 40 ایسے ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں جو انسانی سمگلنگ کے واقعات میں مطلوب ہیں۔ یہ وہ ملزمان ہیں جو پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔
ایف آئی اے انسانی سمگلنگ کے شکار افراد سے معلومات لے کر ان ملزمان کے خلاف مقدمات تو درج کر لیتی ہے لیکن ان کو قانون کی گرفت میں لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا دعوی ہے کہ ایران ترکی اور یونان سے یورپ میں داخل ہونے کا زمینی روٹ بہت حد تک کمزور ہو چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد اطہر وحید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سال 2021 میں ہم نے انسانی سمگلروں کا ایک نیٹ ورک پکڑا تھا جس میں چار سگے بھائی شامل تھے۔ ایک پاکستان سے آپریٹ کررہا تھا۔ دوسرا ایران میں جب کہ تیسرا بھائی ترکی  اور چوتھا یونان میں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انٹرپول کی مدد سے پاکستان، ترکی اور ایران میں رہائش پذیر تین بھائی گرفتار کر لیے گئے وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ جبکہ یونان میں مقیم چوتھا بھائی ابھی تک گرفت میں نہیں آ سکا۔

روٹ کی تبدیلی بڑی رکاوٹ

ایف آئی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران ترکی اور یونان سے یورپ میں داخل ہونے کا زمینی روٹ بہت حد تک کمزور ہو چکا ہے کیونکہ تینوں ممالک نے اپنے سرحدی نظام کو بہت بہتر کر لیا ہے۔
اب یہ نیا روٹ پچھلے ایک سال سے منظر عام پر آیا ہے جس میں سمگلر متاثرین کا مصر یا لیبیا کا ویزہ لگواتے ہیں پھر لیبیا سے کشتیوں میں لیکر براستہ یونان اٹلی جاتے ہیں۔
 ڈائریکٹر ایف آئی اے سرفراز احمد خان ورک کا کہنا ہے کہ ’یونان میں زندہ بچ جانے والے 12 میں سے 10 پاکستانیوں سے رابطہ ہو چکا ہے۔ ان سے ملنے والی معلومات کے بعد 47 خاندانوں تک ہم پہنچ چکے ہیں، لیکن ابھی تک صرف پانچ خاندانوں نے قانونی چارہ جوئی کرنے کا فیصلہ کیا ہے باقی ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان ایجنٹوں نے اٹلی بھجوانے  کے لیے پانچ سے سات ہزار ڈالر فی کس وصول کیے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں نافذ قانون کے مطابق انسانی سمگلنگ کا الزام ثابت ہونے ک بعد سزا 14 سال ہے۔

شیئر: