پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام نے کہا ہے کہ پشاور اور مضافاتی علاقوں میں داعش سمیت پانچ دہشت گرد تنظیمیں مختلف کارروائیوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔
صوبے کے جنوبی اضلاع کے بعد پشاور ڈویژن دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے، بالخصوص قبائلی اضلاع سے متصل نواحی علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے متعدد بار پولیس پر حملے کیے گئے۔
سانحہ پولیس لائن کے بعد صوبے کے حساس علاقوں کے ساتھ ہی پشاور کے مضافاتی علاقوں میں بھی ٹارگٹڈ اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟Node ID: 731566
-
پشاور دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا، پولیس کا احتجاجNode ID: 739541
کیا دہشت گرد مقامی ہیں؟
اردو نیوز نے سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے افسر نے کہا کہ پشاور کی سرحد صوبے سے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع سے ملی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق ’اگر متنی اور ادیزئی کی بات کی جائے تو یہ ایف آر علاقوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، جہاں سے دہشت گرد رات کی تاریکی میں کارروائی کر کے واپس بھاگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ریگی اور سربند کے علاقے ضلع خیبر سے جبکہ چارسدہ، شب قدر اور داؤد زئی ضلع مہمند سے متصل ہیں اس لیے یہاں کے قریبی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ملی ہیں۔‘
سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ ارمڑ کے علاقے بھی ایف آر کے کچھ قبائلی علاقوں کے بارڈر پر واقع ہیں۔ ان علاقوں میں مقامی دہشت گردوں کی تعداد کم ہے۔

پشاور کتنے گروپ موجود ہیں؟
محکمہ انسداد دہشت گردی کے افسر نے بتایا کہ اس وقت پانچ سے زائد شدت پسند تنظیمیں کارروائیاں کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’متنی، ادیزئی میں عبدالرحیم گروپ اور حسن خیل کے علاقے میں ٹی ٹی پی شینے گروپ کا وجود ہے جو کہ سب سے خطرناک گروپ مانا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ داعش سے وابستہ افراد بھی بعض مقامات پر موجود ہیں۔ اسی طرح ٹی ٹی پی مہمند گروپ کے علاوہ چند دیگر چھوٹی تنظییں بھی کارروائیاں کرتی ہیں۔
ہر دہشت گرد تنظیم کا ہدف الگ الگ کیوں؟
سی ڈی ڈی حکام کے مطابق تفتیش سے یہ پتا چلا ہے کہ ہر دہشت گرد گروپ کے اپنے اپنے اہداف ہوتے ہیں جیسا کہ داعش اقلیتوں پر حملوں میں ملوث ہے جبکہ شینے اور عبدالرحیم گروپ پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شامل رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے لیے شدت پسندوں کے الگ گروپ موجود ہیں تاہم یہ تنظیمیں ایک دوسرے سے مختلف واقعات میں تعاون بھی کرتے ہیں۔‘
پشاور میں دہشت گردوں کی تعداد کتنی ہے؟
سی ٹی ڈی حکام نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ پشاور ڈویژن میں دہشت گردوں کی تعداد 15 سے زیادہ نہیں ہو گی مگر ان کے سہولت کاروں کی تعداد زیادہ ہے۔
’یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے جو ہر مشن کے لیے الگ سے سہولت کاروں کو ساتھ ملاتا ہے۔ دہشت گردوں کے گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے جو افغانستان یا قبائلی اضلاع سے آ کر پشاور کے قریب پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف انٹلیجنس بیسڈ اپریشن کتنا کامیاب رہا؟
پشاور کے سینیئر صحافی صفی اللہ گل نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت قبائلی اضلاع سمیت پورے صوبے کے حساس علاقوں میں 32 مقامات پر آپریشن کیے جا رہے ہیں جن میں انٹیلی جنس اور ٹارگیٹڈ آپریشن شامل ہیں مگر دہشت گردوں کے خلاف یہ کارروائیاں کامیابی سے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شدت پسند تنظیمیں کمزور پڑ جانے کے بعد ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں کیونکہ ان کے مقاصد ایک ہوتے ہیں اسی لیے یہ ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ مثال کے طور داعش اور ٹی ٹی پی مہمند گروپ ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ کارروائی کرتے تھے۔
