Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا لکشمی چوک جہاں دن کو ستارے چمکتے دمکتے تھے

لاہور کئی حوالوں سے ایک تاریخ ساز شہر مانا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ادبی مجالس، فلمی ستاروں کی محفلیں، تاریخی تحاریک، ثقافتی ورثہ، عظمت رفتہ کی کھلی کتابوں کی مانند بلند و بالا عمارتیں اور مقامی لوگوں کی غیر رسمی نشستیں یہاں کی اصل پہچان ہوا کرتی تھیں۔  
ادب، سیاست، گائیکی اور فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں سمیت دیگر شعبوں کے قابل ذکر نام اسی شہر میں پنپ کر آسمان کی اونچائیوں پر پہنچے اور درخشاں تارے بن کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔  
لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب صنعتی انقلاب اور جدیدیت نے اس شہر کے حقیقی حسن کو کسی حد تک مسخ دیا، تاہم اب بھی لاہور کے اکثر تاریخی مقامات، چوک چوراہوں اور عمارتوں کے دریچوں سے جھانک کر دیکھا جائے توانسان لاشعوری طور پر عہد رفتہ میں کھو جاتا ہے۔
لاہور کا مشہور لکشمی چوک اسی  حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جہاں بیسویں صدی میں پاکستانی فلم انڈسٹری نے عروج کا ایک بے مثال دور دیکھا۔ ریلوے سٹیشن سے آنے والا میکلورڈ روڈ، لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی سے آنے والا ایبٹ روڈ اور نسبت روڈ کا منہ اسی چوک میں آکر کھلتا ہے۔ چوک کے عین سامنے ایک خوبصورت اور بلند و بالا لکشمی بلڈنگ آج بھی قائم و دائم ہے جو  راہ گیروں کو اپنے ماضی کی داستان سنا رہی ہے۔
 اسی بلڈنگ میں ماضی کی  نامور سیاسی و مذہبی شخصیت  تحریک پاکستان کے راہنما مولانا عبدالستار نیازی رہائش پزیر تھے۔ ان کی یہ رہائش گاہ بے شمار تحریکوں  کا مرکز رہی ہے۔
آفتاب ظفر بٹ پینسٹھ سالوں سے  لکشمی چوک کے رہائشی ہیں ۔ انہوں نے لکشمی چوک کے نشیب و فراز اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اردو نیوز کو  لکشمی چوک کا پرانا محل وقوع بتاتے ہوئے آفتاب ظفر نے کہا کہ ’اس بلڈنگ کے بالکل سامنے اور چوک کے عین وسط میں  ایک فوارہ ہوا کرتا تھا۔‘
پچھتر سالوں سے یہاں مقیم محمد نیاز کے مطابق 'اس فوارے میں روشنیاں ہوا کرتی تھیں۔ اکثر نامور اداکار یہاں آکر چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے  محو گفتگو ہو جایا کرتے تھے۔'

مقامی لوگوں کے مطابق یہاں نامور اداکاروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز

وہ اداکار یہاں آتے تھے کہ تصور بھی نہیں

لکشمی بلڈنگ کے بالکل سامنے دائیں جانب رائل پارک ہے جو فلم انڈسٹری کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں رائل پارک  اداکاروں، فلمسازوں، ہدایت کاروں،  پروڈیوسرز اور فلم رائٹرز کے معمول کی بیٹھک کے لئے  مرکزی حیثیت رکھتا تھا ۔ فلم سازی اور  اخراجات کے علاوہ فلموں کے متعلق ہر قسم کی  گفتگو اسی مقام پر کی جاتی تھی۔
 رائل پارک کے ارد گرد سینما، عمارتیں، رنگارنگ اور لذیذ کھانے اور فلمی پوسٹرز ہر وقت نمایاں دکھائی دیتے تھے۔  
یہاں کے رہائشی عبدالمجید  مشہور و معروف اداکار یوسف خان کے ساتھ ہوتے تھے ۔ انہوں نے یوسف خان  کے ساتھ ایک فلم میں پولیس والے کا کردار بھی نبھایا ہے ۔
عبدالمجید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  رائل پارک  میں  سارے فلمی اداکار اور ہدایت کار آ کر بیٹھتے تھے اور  فلم کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔
انہوں نے  اپنے سامنے  موجود  عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا  'یہاں 750  کے قریب فلمی دفتر تھے۔ ہر دفتر میں کوئی نہ کوئی ضرور موجود رہتا تھا۔
رائل پارک  کے ارد گرد یوسف خاں، اعجاز، امان اللہ ،   اور دیگر معروف اداکاروں کے دفتر موجود تھے اور رائل پارک میں  نشاندہی کے لئے ان کے ناموں سے منسوب بورڈ بھی لگے ہوتے تھے۔'  
مقامی لوگوں کے مطابق یہاں اداکارہ ہما، عقیل بٹ، میڈم نور جہاں، اعجاز صاحب، ندیم، شبنم، آسیہ، سلطان راہی، منور ظریف، رنگیلا، اجمل،  قوی، فردوس، عالیہ  سمیت دیگر نامور اداکاروں کا آنا جانا رہتا تھا۔
محمد نیاز چونکہ پاکستان بننے سے قبل  یہاں پیدا ہوئے اور آج تک  اسی چوک کے ایک کنارے پر قائم دکان میں  لکڑیوں کا کام کرتے ہیں۔ سو انہوں نے لکشمی چوک پر پچھلے 75 سالوں میں  آتے جاتے موسموں کے رنگ اپنی نگاہوں سے دیکھے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ  'رائل  پارک میں  وہ اداکار آتے تھے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ندیم، شبنم، ضیاء کشمیری، سلطان راہی، انجمن،  سمیت سارے پرانے اداکاروں کا مرکز یہی مقام تھا۔'

ماضی کے جمگتے رائل پارک میں اب ایک بھی فلم دفتر نہیں

   تاہم موجودہ رائل پارک  کسی بھی صورت ماضی کی طرح پررونق نہیں رہا۔ گلی کے  آغاز پر ایک دو نوجوان ٹیلے پر پھل فروخت کر رہے ہیں جبکہ  بڑی  گلی سے اندر داخل ہوتے ہی مرکزی مقام خالی نظر آتا ہے ۔ آج کل   ہر شام کو  مقامی افراد یہاں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تاکہ  دھول نہ اٹھے ۔
اسی گلی کے اختتام پر بائیں  جانب  چند مقامی  ضعیف افراد  نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں لگا رہے ہوتے ہیں۔  اس مرکزی مقام سے تین   مزید شاخیں نکلیں ہیں، جہا ں آج کل ایک بھی فلمی دفتر موجود  نہیں ہے۔ 
تینوں گلیوں میں  پرنٹنگ، بائینڈنگ اور پریس کا کام ہو رہا ہے۔ بائیں  جانب گلی میں  آگے چل کر ایک دو فلمی پوسٹرز ضرور مل جاتے ہیں لیکن وہ  کسی اشتہاری مہم  کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ 

فلموں کی فیکٹری میں بوسیدگی کا ڈیرہ

رائل پارک کی  اسی گلی کے ذریعے باہر نکلنے کے بعد  نیو ایج ہوٹل  سامنے نظر آتا ہے، بائیں جانب  آگے چل کے دو خستہ حال سینماء آج بھی موجود ہیں۔   اوڈین سینماء  اور کیپٹل سینماء  ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے موجود ہیں۔
  آج بھی یہاں فلموں کی نمائش ہوتی ہے اور لوگ یہاں آکر  یاد ماضی میں کھو جاتے ہیں۔  سینماء کے اندر کرسیاں  بوسیدہ ہوگئیں ہیں  اور چاروں طرف    مضر  صحت دھواں  انسانی  غفلت کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں سینما  اپنی  اصل حالت میں قائم ہیں لیکن   غیر متعلقہ افراد کی غیر ضروری سرگرمیوں کی وجہ سے  اس کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔

لکشمی چوک میں سروں کی تعداد فلم کی کامیابی کا معیار

مقامی دکاندار محمد ارشد  لکشمی چوک میں  پینتالیس سالوں سے دوکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ  پہلے جب سینما میں شو ختم ہوتا تو  سڑک کے ہر پار سر ہی سر نظر آتے تھے۔
محمد ارشد رائل پارک کو  فلموں کی فیکٹری قرار دیتے ہیں۔

لشکمی چوک میں ایک ہوٹل مسلمانوں کے لیے مخصوص تھا جس کو کنگ سرکل کہا جاتا تھا۔ فوٹو: اردو نیوز

 انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ' یہ سینماؤں کی مارکیٹ ہے اور لکشمی  چوک  اندرون لاہور کا دل مانا جاتا ہے۔ رائل پارک فلموں کی فیکٹری ہوا کرتی تھی۔  فلمسازوں اور اداکاروں کے سارے دفتر رائل پارک میں ہی ہوتے تھے۔'
مقامی رہائشی  محمد نیاز نے  لکشمی چوک کے  سینماؤں کا ذکر کرتے ہوئے اردو نیوز کوبتایا 'یہاں پچیس سے تیس کے قریب سینما تھے۔  پرنس، صنوبر، کیپٹل، گلستان، نغمہ، مبارک  اور دیگر سینماؤں کا مرکز لکشمی چوک تھا۔'
آفتاب ظفر بٹ نے کہا کہ ہر   جمعہ کو نئی فلم لگتی تھی، فلم انڈسٹری کے سارے ستارے رائل  پارک میں جمع ہو تےتھے تاکہ دیکھ سکیں کہ  کتنے لوگ باہر نکل رہے ہیں۔' لوگوں کی تعداد اور آوازوں سے معلوم کیا جاتا تھا کہ  فلم کتنی کامیاب رہی ہے۔'
 عبدالمجید  بتاتے ہیں کہ ان کو فلم دیکھنے کے لئے خصوصی طور پر  چار چار پانچ پانچ ٹکٹیں فری میں ملتی تھیں۔   یہاں سینماؤں کے علاوہ کچھ ہوٹلز بھی موجود تھے جن میں برسٹل ہوٹل، ویسٹ انڈین ہوٹل،  اور مانسرور ہوٹل شامل ہیں۔
ایک ہوٹل مسلمانوں کے لیے مخصوص تھا جس کو کنگ سرکل کہا جاتا تھا۔ یہاں فلمساز، ہدایت کار اور اداکار تانگوں پر سوار ہو کر آتے تھے اور فلموں پر بحث مباحث میں شرکت کرتے تھے۔ تاہم اردو نیوز کو بتایا گیا کہ یہ سارے ہوٹلز قیام پاکستان کے بعد سے معدوم ہوگئے  ہیں۔

لکشمی چوک اب بٹ کڑاہی کا مرکز

ان سینماؤں سے باہر نکل کر لکشمی چوک آتے ہی سامنے  بٹ کڑاہی کا مرکز ہے جہاں  یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اصل بٹ کڑاہی کونسی ہے۔ ایک ہی قطار میں  بٹ کڑاہی کے اس قدر سائن بورڈ ز آویزاں کیے گئے ہیں کہ کھانے کے لئے آنے والوں  کا  پیٹ  بورڈز دیکھ کر ہی  بھر جاتا ہے۔
  ایک  دیوار پر  تسلسل کے ساتھ 'اصلی بٹ کڑاہی آگے ہے' کی پٹی لگی ہے جس کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے پر بٹ کراہی کا  اصل مرکز آجاتا ہے۔
محمد ارشد کے مطابق  یہی مشہور بٹ کڑاہی والا  ہے اور دیگر  سارے اس کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ محمد ارشد نے اردو نیوز کو بتایا کہ مشہور بٹ کڑاہی اور بٹ سویٹس موجودہ دکانوں میں سب سے پرانی ہیں۔ 
آفتاب ظفر بٹ بتاتے ہیں کہ' بٹ کڑاہی کے بالکل اوپر  پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ  کے لیڈر چوہدری محمد حسین رہا کرتے تھے۔ ان کی وفات  کے بعد  ان کے بچوں نے یہ عمارت فروخت کر دی تھی۔'

دیال سنگھ میں اب ادبی محفلیں نہیں کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے ہیں

اسی راستے غروب آفتاب کی طرف جاتے ہوئے کچھ فاصلے پرگورنمنٹ دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ  پبلک لائبریری  کا وجود  انیسویں صدی کے پہلے عشرےسے یہاں قائم ہے۔  
کالج اور لائبریری کی عمارت پرانی ہے لیکن  لکشمی چوک کی یہ واحد عمارت ہے جس کا حسن تاحال برقرار ہے۔
محمد نیاز کی دکان دیال سنگھ کالج کے بالکل قریب ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دیال سنگھ کالج کی عمارت تاحال ا پنی اصل حالت میں  قائم ہے۔  آج کل   دیال سنگھ کالج کے باہر  مقامی بچے  روزانہ کی بنیاد پر کرکٹ کھیلتے ہیں ۔
آج کل  یہاں ادبی محفلوں کا انعقاد تو نہیں ہوتا تاہم اردو نیوز کو مقامی لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ  موسم گرما  اور سرما کی چھیٹیوں میں یہاں  بعض اوقات  کرکٹ کا ایک مختصر ٹورنامنٹ ضرور منعقد کیا جاتا ہے ۔

’رونق انسانوں سے ہوتی ہے، انسان چلے جائیں تو رونق ختم‘

ایک زمانے میں لکشمی چوک کو نیند نہیں آتی تھی اور یہاں دن کو بھی تارے چمکتے تھے۔دن بھر  اس کی روشنیاں،فلمی پوسٹر، مالشیے اور سستے مگر لذیذکھانے اپنا جلوہ دکھاتے رہتے  تھے۔ان رونق میلوں کے ساتھ ساتھ یہاں  سیاسی گہما گہما بھی عروج پر تھی۔  تاہم اب  یہاں صرف کھانوں کے مراکز رہ گئے ہیں اور کچھ  پھٹے پرانے پوسٹرز ارد گرد  مل جاتے ہیں۔ فلمی ستاروں میں سید نور کبھی کبھار یہاں آجاتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی اداکار یا تو فوت ہوگئے ہیں یا اتنے ضعیف ہوگئے ہیں کہ یہاں آنا ان کے لیے مشکل ہے۔
محمد ارشد بتاتے ہیں کہ پہلے سارے لوگ اندرون میں رہتے تھے  لیکن اب لوگ بکھر گئے ہیں اور لکشمی چوک صرف لذیز کھانوں تک محدود رہ گیا ہے۔
 آفتاب ظفر بٹ نے سنیماؤں اور ہوٹلوں  کے متعلق اردو نیوز کو بتایا 'نشاط سینما ابھی ہوٹل بن گیا ہے۔ صنوبر اور رتن سینماء کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ گلستان اور میٹروپول سینما  آج بھی مخدوش حالت میں موجود ہیں  ۔ محفل سینما کو تھیٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ مبارک سینماء مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔'
یہاں کے رہائشی   محمد نیاز  کیبل  کنکشن اور موبائل کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے مطابق موبائل کے آنے سے  سینما کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں 'اب یہاں افراتفری بڑھ گئی ہے۔ سکون کا ماحول نہیں رہا، بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ مصروف ہو گئے ہیں۔'
 آفتاب ظفر بٹ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'رونقیں انسانوں سے ہوتی ہیں جب انسان چلے جائیں تو رونقیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اب وہ انڈسٹری ہی ختم ہوگئی ہے تو یہاں کوئی بھی نہیں بیٹھتا۔‘

شیئر: