اسلام آباد دھماکہ: سندھ اور پنجاب میں سکیورٹی ہائی الرٹ، کون سے علاقے ’ہائی رسک‘ پر؟
اسلام آباد دھماکہ: سندھ اور پنجاب میں سکیورٹی ہائی الرٹ، کون سے علاقے ’ہائی رسک‘ پر؟
بدھ 12 نومبر 2025 10:40
زین علی -اردو نیوز، کراچی
اسلام آباد میں منگل کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد سندھ اور پنجاب میں اس وقت سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ دونوں صوبوں کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشنز میں پولیس، رینجرز، ضلعی انتظامیہ اور حساس اداروں کو ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ’پیشگی، مربوط اور فعال اقدامات‘ اُٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ کے مطابق کراچی سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں میں 30 نومبر تک سکیورٹی ہائی الرٹ رہے گی۔
اسلام آباد کے حملے کے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے کے تمام داخلی و خارجی راستوں، ٹول پلازوں، شاہراہوں اور عوامی مقامات پر سخت چیکنگ کی جائے گی۔
سرکاری اعلامیےکے مطابق کراچی کے حساس مقامات، شاپنگ مالز، تعلیمی اداروں، اور ٹرانسپورٹ مراکز کی خصوصی نگرانی کی جا رہی ہے۔
ڈولمین مال کلفٹن، لکی ون مال، ایٹریئم مال، ملینیم مال سمیت طارق روڈ، صدر، گلستانِ جوہر اور نارتھ ناظم آباد کی مارکیٹوں کو ہائی رسک زون میں شامل کیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ سندھ نے ہدایت کی ہے کہ صوبے کے داخلی و خارجی پوائنٹس، اہم سڑکوں اور ذیلی راستوں پر چیکنگ کو مزید سخت کیا جائے۔ انٹیلی جنس اقدامات کو بالخصوص جرائم سے متاثرہ علاقوں اور مضافاتی آبادیوں میں مؤثر بنایا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی خطرے پر بروقت قابو پایا جا سکے۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا ہے کہ ’شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت پنجاب کی اوّلین ترجیح ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
جامعہ کراچی، این ای ڈی، ڈاؤ اور اقراء یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ویک اینڈز پر بھی ہائی الرٹ رہیں اور غیر متعلقہ افراد کا داخلہ محدود کریں۔
پنجاب کے حساس اور گنجان آباد علاقوں میں سکیورٹی بڑھائی جائے: نوٹی فکیشن
دوسری جانب پنجاب حکومت نے بھی صوبے بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ جاری کیا ہے۔ اُردو نیوز کے لاہور میں نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے اسلام آباد حملے کے بعد رات گئے ایک سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے۔
اس نوٹی فکیشن میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آر پی اوز، سی پی اوز، ڈی پی اوز اور ریسکیو اداروں کو ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ وہ ہائی الرٹ پر رہیں اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مربوط اقدامات اُٹھائیں۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے حساس، اہم اور گنجان آباد علاقوں میں سکیورٹی بڑھائی جائے جبکہ تمام اضلاع میں تیار کردہ سکیورٹی پلان پر من و عن عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا ہے کہ ’شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت پنجاب کی اوّلین ترجیح ہے۔‘ تمام اداروں کو انتہاپسندی کے خطرات کے خلاف پیشگی کارروائیاں یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
شہری سکیورٹی اہلکاروں سے تعاون کریں: محکمہ داخلہ
سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ چوکنا رہیں، سکیورٹی اہلکاروں سے تعاون کریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع متعلقہ حکام کو دیں۔
محکمہ داخلہ سندھ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پُر ہجوم مقامات پر غیر ضروری جانے سے گریز کریں، گاڑیاں غیر محفوظ مقامات پر پارک نہ کریں اور کسی مشکوک شخص یا بیگ کی فوری اطلاع پولیس ہیلپ لائن 15 یا رینجرز واٹس ایپ 1101 پر دیں۔
کراچی اور لاہور میں شاپنگ مالز، مارکیٹس، تعلیمی اداروں اور ٹرانسپورٹ مراکز پر واک تھرو گیٹس، میٹل ڈیٹیکٹرز اور 24 گھنٹے سی سی ٹی وی نگرانی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
سکیورٹی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شدت پسند عناصر ملک کے بڑے شہری مراکز کو نشانہ بنا سکتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
اسلام آباد میں حالیہ خودکش دھماکے کے بعد سکیورٹی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شدت پسند عناصر ملک کے بڑے شہری مراکز، بالخصوص کراچی اور لاہور جیسے معاشی و سیاسی مراکز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نومبر کے مہینے میں خریداری، تقریبات اور مذہبی اجتماعات کے باعث رش بڑھنے سے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سندھ حکومت نے واضح کیا ہے کہ سکیورٹی ہدایات پر عمل نہ کرنے والے اداروں یا مقامات کے خلاف سکیورٹی آف ولنریبل اسٹیبلشمنٹس ایکٹ 2024 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
ان قوانین کے تحت غفلت برتنے والوں پر بھاری جرمانے، لائسنس معطلی یا انتظامیہ کے خلاف مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’یہ الرٹ خوف پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدام ہے۔ امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے تاہم ادارے کسی بھی غیر معمولی سرگرمی پر فوری ردعمل کے لیے تیار ہیں۔‘