Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا امن جرگے میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت، کیا امن بحال ہو سکے گا؟

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکومت کی جانب سے بلایا گیا امن جرگہ بدھ کو سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت صوبائی اسمبلی میں منعقد ہوا۔
جرگے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی، گورنر فیصل کریم کنڈی، سپیکر بابر سلیم سواتی، سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سابق گورنرز اور وزراء سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔
امن جرگے میں قبائلی عمائدین، آئی جی پولیس، قانون دان، سینیئر صحافی اور علماء کرام بھی موجود تھے۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا ’آج امن کے لیے ہم سب مل کر بیٹھے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف امن ہے۔ امن تب ہوگا جب دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ بند کمروں میں فیصلے کرنے سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر سب کو ساتھ بٹھا کر پالیسی بنائی جائے تو وہ سب کے لیے قابل قبول ہو گی۔ مختصر مدتی پالیسی کی بجائے پائیدار امن کے لیے ٹھوس پالیسی بنائی جائے۔
’ہم پاکستان میں امن چاہتے ہیں لیکن ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو نہ بگاڑا جائے۔‘
سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی نے کہا کہ آج ہماری کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جاسکے کیونکہ آپریشنز سے مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔‘
امن جرگے میں شریک اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے خطاب میں کہا کہ ایوان میں امن جرگے کا انعقاد خوش آئند ہے، سب کا شکریہ جنھوں نے اس اہم مسئلے پر بات کرنے کے لیے شرکت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے کا بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ’آج میں ایک شہری کی حیثیت سے جرگے میں شریک ہوا ہوں نہ کہ سیاسی رہنما ہونے کی وجہ سے آئے۔‘

امن جرگہ سپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت صوبائی اسمبلی میں منعقد ہوا (فائل فوٹو:پی ٹی آئی، فیس بک)

امن جرگے کا اعلامیہ
پانچ گھنٹے طویل نشست کے بعد امن جرگے نے 10 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لے کر قانون کے دائرے میں دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
امن و امان کے حوالے سے اسمبلی سے منظور شدہ قراردادوں پر فوری عمل درآمد کو ضروری قرار دیا جائے۔
جرگے کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ داخلی سلامتی کی قیادت پولیس اور سی ٹی ڈی کرے گی جبکہ ضرورت پڑنے پر دیگر اداروں کی معاونت طلب کی جائے گی۔
غیرقانونی محصولات بھتہ خوری اور رقوم کی غیرقانونی منتقلی کے خاتمے کے لیے مربوط پالیسی بنائی جائے تاکہ دہشت گردوں کا معاشی نیٹ ورک ختم ہو سکے۔
اعلامیے میں خیبر پختونخوا بالخصوص شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیرقانونی نکاسی بند کرنے کا مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے متعلق ایوان کو اِن کیمرہ بریفنگ دی جائے۔

صحافی ارشد عزیز ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھنا خوش آئند امر ہے (فائل فوٹو: تاج محمد، فیس بک)

جرگے کے اعلامیے میں امن کے لیے صوبائی فورم کے قیام کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
جرگے کے ثمرات کیا ہوں گے؟ 
سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھنا خوش آئند امر ہے۔
’اس وقت صوبے کے اندر بے امنی ہے اور ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں، ایسے میں اگر سیاسی اتحاد کی فضاء پیدا ہو جائے تو یہ ایک مثبت اقدام ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بڑے عرصے بعد صوبائی سطح پر اہم اجلاس بلایا گیا جس کے ثمرات نظر آنے کی امید تو ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ مذاکرات یا آپریشن کے معاملے پر تمام جرگہ اراکین متفق ہو جائیں۔
’ماضی میں بھی عسکریت پسندوں سے بات چیت ہوئی مگر اس کا فائدہ قلیل عرصے تک ہی رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سال 2004 سے لے کر اب تک مختلف سطح پر حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں سے سات مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر کچھ ہی عرصے میں مذاکرات ختم کر دیے گئے اور پھر دوبارہ سے دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوئی۔‘
ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر عزیز سرور کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے جرگہ بلانا وقت کی ضرورت ہے۔ ’اس سے سیاسی اتحاد کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے۔‘
 ان کا کہنا ہے کہ ’گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جرگے میں ان کی شرکت سے وفاقی حکومت تک جرگے کے مطالبات نہ صرف پہنچائے جائیں گے بلکہ گورنر صوبے کے دفاع میں موقف اپنائے گا۔‘

جرگے میں سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سابق گورنرز اور وزراء سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے (فائل فوٹوـتاج محمد، فیس بک)

ڈاکٹر عزیز سرور کے مطابق جرگے میں واضح کیا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے متعلق ایوان کو بریف کیا جائے جو کہ ایک جائز مطالبہ ہے۔
’اگر امن جرگے کے کچھ نکات پر وفاق نے عمل درآمد کیا تو امن کے قیام میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جرگے میں افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر زور دیا تاہم انہیں جرگے میں افغانستان حکام سے بھی مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ سرحد پر دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور ایسے عناصر کو افغان سرزمین کو استعمال کرنے نہ دے۔‘
’جرگے میں پولیس اور سی ٹی ڈی کی استعداد کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے جبکہ حکومت کی غلط پالسیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ امید ہے صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں جو مطالبات ہیں، ان پر جلد عمل درآمد کیا جائے تاہم اب جرگے اراکین کو وفاق کے ساتھ مطالبات پر بات چیت کرنی چاہیے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی دہشت گردوں نے وانا کیڈٹ کالج پر حملہ کرکے بڑی کارروائی کرنے کی کوشش کی تھی تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی بروقت جوابی کارروائی سے دہشت گردوں کا یہ منصوبہ ناکام ہوا۔

شیئر: