پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا چیلنجز سے بھرپور مگر نتیجہ خیز دور اپنے اختتام کے قریب ہے جس میں پالیسی سازی سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔ اس دوران شہباز شریف نے سٹریٹیجک قدم اٹھاتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبے میں تعلقات کو مزید گہرا کیا۔
خلیجی تعاون کونسل کی رکن ان معیشتوں نے بھی پاکستان کی معاشی بحالی اور استحکام میں اپنا حصہ ڈالنے کی رضامندی ظاہر کی۔
پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔ ان تاریخی تعلقات کی بنیاد مذہب اور ثقافت سے جڑا مشترکہ تعلق، باہمی طور پر مفید معاشی ضروریات کے علاوہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے مشترکہ مفاد پر ہے۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا اور پاکستان کے باہمی تعاون سے خطے کو بہت فائدہ ہو گاNode ID: 636781
خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انہی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت خلیجی ریاستوں میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت کا عمل پاکستان کے لیے بے تہاشا مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے ذریعے جی سی سی کو ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ جی سی ریاستوں میں ہنرمند افراد قوت بھجوانے اور تجارتی اشیا کی برآمد کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جی سی سی معیشتوں کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کی اہمیت سے واقف ہیں اور انہیں علم ہے کہ ملک کی بحران زدہ معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف گامزن کرنے میں یہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس حوالے سے لیے جانے والے اہم اقدامات میں ’سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل‘ کا قیام شامل ہے جس کو زراعت، معدینیات و مائننگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں جی سی سی ممالک سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
اس اہم اقدام کے ساتھ ساتھ پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ (خود مختار دولت کا فنڈ) قائم کرنے کے علاوہ عرب امارات کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان جی سی سی کے کلیدی معاشی کردار پر اتفاق کو اس ٹھوس پیش رفت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جو موجودہ دور میں معاشی، سیاسی، سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے فرنٹ پر ہوئی ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کو خاطر خواہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ملک ویسے ہی ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی بحران، دہشت گردی کی نئی لہر اور اہم طاقتوں کے علاوہ قابل اعتماد اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں سنگین بگاڑ جیسے مسائل سے نمٹنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔
لیکن اتحادی رہنماؤں، سکیورٹی سٹیبلشمنٹ اور اہم غیرملکی شراکت داروں کے ساتھ مل انہوں نے کامیابی کے ساتھ اس پیچیدہ صورتحال کا مقابلہ کیا۔
اس کے نتیجے میں پاکستان اس حد تک مستحکم ہو گیا ہے کہ اب وہ نگران سیٹ اپ کے قیام کی طرف بڑھ سکتا ہے جس کے تحت آئندہ انتخابات منعقد ہوں گے۔
نومبر میں جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد سے سیاسی بحران میں قدرے کمی آئی ہے۔ جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا نیا سٹاف لیول معاہدہ طے پایا ہے جو نو ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔
اگرچہ دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے لیکن اب اس خطرے سے نمٹنے کے لیے بہتر سکیورٹی سٹرکچر موجود ہے۔ اور پاک چین قتصادی راہداری پر کام بھی بحال ہو گیا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات واپس ٹریک پر آ گئے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سول اور ملٹری اشتراک اب اقتصادی میدان تک پھیل گیا ہے جس سے جی سی سی معیشتوں کے ساتھ پاکستان کی معاشی شراکت داری میں بھی مزید تیزی آئی ہے۔
سال 2019 سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو آسان شرائط پر کئی اربوں ڈالر کے قرضے دیے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جا سکے۔ یہ قرضے دراصل آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے دیے گئے تھے جن میں توسیع کر دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ سعودی عرب کی جانب سے اضافی 2 ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا ہے۔
سعودی عرب ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل ایک عملی راستہ فراہم کرتی ہے۔
اس کونسل کے قیام سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور عسکری رہنما غیرملکی قرضوں پر انحصار کرنے کے خطرے سے باخوبی واقف ہیں۔ اور وہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کر کہ ایک ٹھوس معاشی بنیاد رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے تیز رفتار ون ونڈو آپریشن شروع نہیں کر سکا۔ یہ دراصل غیرضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں جو دراصل سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔
سیاسی عدم استحکام بھی حکومتوں کے بار بار تبدیل ہونے کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں معاشی پالیسیوں کو تسلسل سے چلانے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔
ان مسائل نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے ماضی قریب میں ہونے والے بڑی سرمایہ کاری کے وعدوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ سال 2019 میں دورہ اسلام آباد کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے توانائی، معدینایت اور مائننگ کے شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ اسی طرح سے متحدہ عرب امارات اور قطر نے 9 ارب ڈالر کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مشکل طریقہ کار اور سٹرکچرل رکاوٹیں ان وعدوں کے پورا ہونے میں رکاوٹ بنی ہوئے ہیں۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کو اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے گا۔ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کا مقصد ٹیکنوکریٹک مشاورت اور انسٹی ٹیوشنل سہولیات کے ذریعے ون ونڈو سروس فراہم کرنا ہے۔
اس کونسل کی ایپکس کمیٹی میں آرمی چیف جبکہ ایگزیکٹو اور امپلی منٹیشن کمیٹی میں اعلٰی عسکری عہدیداروں کو شامل کرنا تسلسل، شفافیت اور احتساب کی ضمانت کے لیے اہم ہے۔
پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ (خود مختار دولت کا فنڈ) بھی اسی تصور کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ یہ بیوروکریٹک اور ریگولیٹری رکاوٹوں سے آزاد ہوگا۔ فی الحال سات ممالک کے تقریباً 8 ارب ڈالر مالیت کے اثاثے اس فنڈ میں منتقل کیے جا رہے ہیں جبکہ شیئرز کی فروخت اور ان سے حاصل ہونے والی کمائی کے ذریعے سرمایہ کاری کر کہ اس فنڈ کو وسعت بخشی جائے گی۔
حکومت کا جی سی سی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بھی ارادہ ہے جبکہ نقصان میں جانے والی پبلک سیکٹر کمپنیوں کو پرائیویٹائز یا پھر لیز کر دیا جائے گا۔
سرمایہ کاری کی اس مہم میں ٹھوس پیش رفت سے پاکستان کو جی سی سی، چین اور دیگر ممالک سے ہونے والی سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔
پاکستان کا سال2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بننے کا ہدف ایسے ٹھوس اقدامات پر منحصر ہے جو دوطرفہ تجارت کے انتہائی کم حجم کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں۔ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم 3 ارب ڈالر کی مالیت کا ہے۔
اسلام آباد کو بھی خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور افرادی قوت میں تنوع کی ضرورت ہے۔ اس وقت تقریباً 40 لاکھ پاکستانی ورکرز جی سی سی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، عرب امارات اور پاکستان کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کی طرز پر سعودی عرب اور دیگر جی سی سی رکن ممالک کے ساتھ معاہد ے کی ضرورت ہے۔
آئی ٹی اور سروسز کے شعبے میں ہنر مندپاکستانی افراد قوت خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔
آخر میں کہتا چلوں کہ شہباز شریف نے پاکستان میں معاشی بحالی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے اچھا کام کیا ہے۔ امید کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی سیاسی قیادت جی سی سی معیشتوں کے ساتھ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی پارٹنرشپ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے اس سلسلے کو برقرار رکھے گی۔
مصنف کے بارے میں