Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کی آخری دنوں میں انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش کیوں؟

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روایتی حریف انڈیا کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
انڈیا کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا پڑوسی ملک مذاکرات میں سنجیدہ ہو تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔
شہباز شریف نے ان خیالات کا اظہار پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر، اور امریکہ اور دوسرے اہم ممالک کے سفرا کی موجودگی میں کیا۔ جس کی وجہ سے ان کے بیان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
شہباز شریف کا بیان اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ اب تک پاکستان کا موقف تھا کہ جب تک انڈیا پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات جن کے زریعے اس نے جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی واپس نہیں لیتا تب تک اس سے بات نہیں ہوتی۔ لیکن اب شہباز شریف کا یہ کہنا کہ ان کا ملک مذاکرات کے لیے تیار ہے، پرانے موقف سے ہٹ کر ہے۔
اس بیان کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ اس وقت آیا جب شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے رہ گئے ہیں، تو اس وقت انہیں یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو قریب سے دیکھنے والے ماہرین اس پیش رفت کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے رہے ہیں۔ 

’مخاطب انڈیا نہیں بین الااقوامی برادری ہے‘

نئی دہلی میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط  کے خیال میں اگرچہ یہ بیان شہباز شریف نے ایک روایتی سیاستدان کی طرح دیا ہے جو کسی بھی طرح کوئی بھی بات کر جاتے ہیں لیکن درحقیقیت اس کی مخاطب انڈیا سے زیادہ بین الااقوامی برادری ہے۔
’شہباز شریف نے محتاط رہتے ہوئے بین الااقوامی برادری بالخصوص امریکہ اور دوسرے دوست ممالک کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان انڈیا سے مذاکرات کا خواہاں ہے اور خطے میں امن چاہتا ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ جب بھی مذاکرات ہوئے پاکستان کشمیر کے خصوصی درجے کا معاملہ لازمی اٹھائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الااقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی کے مطابق یہ سافٹ امیج بنانے کی ایک کوشش ہے۔
شہباز شریف اپنے اس بیان کے ذریعے ایک نرم گوشہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ اور دوسرے بااثر ملکوں کو یہ باور کروانا چاپتے ہیں کہ پاکستان جنگ کے خلاف ہے اور مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا اور مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔‘
دنیا جنگ کو اچھا نہیں سمجھتی یا کم ازکم جنگ کے خلاف ایک پوزیشن ضرور لیتی ہے جیسا کہ روس کے حملے کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا۔ اس لیے پاکستان بھی یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں اور امن قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘
تاہم خارجہ امور کے سینیئر صحافی، کالم نگار اور ایکسپریس ٹیلی ویژن کے میزبان کامران یوسف کے نزدیک شہباز شریف کی یہ پیشکش امریکہ اور بین الااقوامی برادری کے ذریعے حالات سازگار بنانے کی ایک کوشش ہے تاکہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز انتخابات کے بعد حکومت میں واپس آتی ہے تو انڈیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جا سکیں اور اس میں دوست ممالک کی حمایت حاصل ہو سکے۔

کیا انڈیا شہباز شریف کی بات مانے گا؟  

تو کیا انڈیا شہباز شریف کی پیشکش پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہو جائے گا؟
 عبدالباسط کو فوری طور پر یہ ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ وہ معاملات کو برعکس صورت میں شدت پکڑتے دیکھ رہے ہیں۔
اب انڈیا دلچسپی نہیں رکھتا۔ ہمارے انتخابات کے بعد ان کے انتخابات ہونا ہیں۔ لہٰذا اس وقت مذاکرات کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت انڈیا کا موڈ مذاکرات کا نہیں ہے۔ اس وقت ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے اور یہ اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہو سکتے جب تک دونوں ممالک میں انتخابات نہیں ہو جاتے۔‘
بلکہ زیادہ امکان ہے کہ کشیدگی بڑھ جائے گی۔ جب انڈیا میں انتخابات قریب آئیں گے تو سکیورٹی کا کوئی بڑا واقعہ یا آپریشن بھی ہو سکتا ہے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہمارا پڑوسی ملک مذاکرات میں سنجیدہ ہو تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عبدالباسط نے بتایا کہ چند سال پہلے ایک وقت تھا جب انڈیا کی یہ خواہش تھی کہ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو جائے کیونکہ اس وقت انہوں نے کشمیر پر پانچ اگست والا قدم اٹھایا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ انہیں اس کی فیس سیونگ مل جائے۔
جب دو ہزار اکیس میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی ہوئی تو اس وقت انڈیا کی خواہش تھی کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے لیکن اس وقت پاکستان کہہ رہا تھا کہ پہلے پانچ اگست کے اقدامات واپس لیے جائیں۔‘
ڈاکٹر فرحان صدیقی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انڈیا اب مذاکرات کے لیے آگے نہیں بڑھے گا بلکہ اس کے برعکس اشتعال انگیزی میں اضافہ کرے گا۔
’ان کے سیاستدان پہلے ہی گلگت بلتستان اور کشمیر واپس لینے کی باتیں کر رہے ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ جب بھی مذاکرات ہوئے پاکستان کشمیر کے خصوصی درجے کا معاملہ لازمی اٹھائے گا اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان اس کے بارے میں بات نہ کرے۔

پاکستان کی سکیورٹی پالیسی اب اقتصادی سکیورٹی ہے

ان کے خیال میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ اب مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور ان کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ ملٹری سکیورٹی کے لیے معاشی سکیورٹی ضروری ہے اور اس کے لیے امن اور بات چیت ضروری ہے۔ 
دو ہزار آٹھ کے بعد پاکستان کے تمام حکمرانوں اور حکمران اشرافیہ نے تجارت اور مذاکرات کی بات کی ہے۔ ابھی چند روز پہلے پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے ایک خطاب میں آسیان ملکوں کی مثال دی جنہوں نے ان کے خیال میں علاقائی رابطوں اور تجارت کے ذریعے ترقی کی۔ اسی طرح عمران خان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف سی پیک کو پورے علاقے کا کوریڈور کہتے رہے ہیں۔

فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ2008 کے بعد پاکستان کے تمام حکمرانوں اور حکمران اشرافیہ نے تجارت اور مذاکرات کی بات کی ہے۔

’پاکستان کی نئی سکیورٹی پالیسی میں اکنامک سکیورٹی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملٹری سکیورٹی اکنامک اور انسانی سکیورٹی سے منسلک ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کے لیے اب ضروری ہے کہ اقتصادی بحالی ہو جائے۔ لہٰذا اب ابتدائی سوال اقتصادی سکیورٹی کا ہے۔‘

اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی آن بورڈ ہے‘

کامران یوسف کے لیے شہباز شریف کی انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش اس کے موقع محل کے زاویے سے زیادہ اہم ہے۔
فوجی سربراہ کے سامنے اور امریکہ اور دوسرے دوست ممالک کے سفرا اور اعلٰی عہدیداروں کی موجودگی میں شہباز شریف کی انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اب اس معاملے پر پاکستانی مقتدرہ بھی ان بورڈ ہے۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان میں اقتصادی بحالی ہو اور اس میں وہ قریبی دوست ممالک کردار ادا کریں جنہوں نے انڈیا میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
یقینا ان دوست ممالک کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے اس لیے شہباز شریف ان کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہوں گے کہ وہ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ معاملات حل کروانے میں کردار ادا کریں تا کہ خطے میں امن ہو اور یہاں سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔‘

شیئر: