کہتے ہیں کہ فن سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یہی اصول کم و بیش فلموں پر بھی عائد ہوتا ہے۔ آج سے کوئی سات سال قبل انڈیا کے معروف فلم ساز انوراگ کشیپ نے ایک فلم ’رمن راگھو 0۔2‘ بنائی تھی جو عالمی طور پر ’سائیکو رمن‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔
اس فلم میں اداکار نواز الدین صدیقی اور وکی کوشل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ فلم ایک ایسے قاتل پر مبنی ہے جس نے سنہ 1960 کی دہائی میں بالی وڈ نگری یعنی بمبئی میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔
اس وقت میرے چچا مخلص الرحمان بمبئی میں ہی رہا کرتے تھے جب وہ بچپن میں ہمیں یہ کہانی سناتے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔
وہ شخص کسی امیر یا اہم شخصیت کے لیے خوف و ہراس کا مترادف نہیں تھا بلکہ تنہا بے سہارا اور فٹ پاتھ پر سونے والوں اور کچی آبادی میں رہنے والوں کے لیے موت تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تھا تو لوگوں نے چین کا سانس لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔
اس شخص کے بارے میں پولیس کے پاس بھی کوئی زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن جب انوراگ کشیپ نے رمن راگھو پر فلم بنائی تو ایک بار پھر وہ بہت سے لوگوں کی یادوں میں تازہ ہو گیا۔
مزید پڑھیں
-
’جاوید اقبال، ان ٹولڈ سٹوری آف سیریل کلر‘Node ID: 597121
تاہم اس سیریل کلر کو پکڑنے والے پولیس افسر آر ایس کلکرنی نے اپنی دو کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کی کتاب ’کرائمس، کرمنلز این کاپس‘ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’رمن راگھو بلا شبہ جرائم کی تاریخ میں سب سے زیادہ بدنام زمانہ قاتلوں میں سے ایک تھا۔
’1968 کے مون سون کے دوران بمبئی کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں جنونی قتل و خون کے ایک سلسلے کے ذریعے راگھو نے پورے شہر پر خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’سڑکیں اور پارک شام کے وقت خالی ہو جاتے تھے کیونکہ کند پھاوڑے کے ساتھ تن و تنہا قاتل جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے تعاقب میں نکل جاتا تھا۔ راگھو کا شکار ہمیشہ غریب اور بے گھر لوگ ہوتے تھے۔ کچھ خواتین کو قتل کرنے کے بعد ان کے ساتھ عصمت دری بھی کی گئی۔‘
’اس کے قتل کا مقصد سمجھ سے باہر تھا کیونکہ وہ کسی مال و متاع کے لیے قتل نہیں کرتا تھا۔ اس کا عمل میڈیا کے لیے ایک بڑی کہانی بن گیا تھا اور مشتعل لوگوں نے پولیس پر کارروائی کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔'
انڈیا کے ہندی زبان کے اخبار ’امر اجالا‘ نے اس کے بارے میں لکھا کہ ’رمن راگھو نہ تو انڈر ورلڈ ڈان تھا اور نہ ہی گینگ لیڈر یا ڈاکو۔ وہ ایک سائیکو یا نفسیاتی مریض تھا جس کے سر پر خون سوار تھا۔‘
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق جنوبی انڈیا کے تمل ناڈو سے تھا لیکن امر اجالا کے مطابق وہ سنہ 1929 کے آس پاس پونے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا۔ رمن راگھو ایک قاتل نفسیاتی مریض کیسے بنا یا کن حالات نے اسے سیریل کلر بنایا اس کی مکمل معلومات شاید اب کسی کے پاس نہیں لیکن اس کے جرائم اتنے شدید اور اتنے بہیمانہ تھے کہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور تھیں کوئی اسے بھوت پریت سمجھتا تھا جو شکلیں بدل لیتا ہے تو کوئی اسے ڈراؤنا خواب سمجھتا تھا۔ پولیس کے سامنے جب اس نے اعتراف جرم کیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ قتل بھگوان کے کہنے پر کرتا تھا اور اسے اس پر کوئی افسوس نہیں تھا۔
صحافی ایم رحمان نے مسٹر کلکرنی کی کتاب پر انڈیا ٹوڈے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’راما کانت ایس کلکرنی اس وقت سب سے نوجوان آئی پی ایس افسر تھے جنھیں یہ کام سونپا گيا۔ سنہ 1966 میں مل میں کام کرنے والے ایک بے روزگار شخص شندھی دلوئی عرف رمن راگھو کو پکڑا گیا لیکن ثبوت کے عدم موجودگی میں اسے چھوڑ دیا گیا۔‘

پولیس ریکارڈ کے مطابق اس نے 40 سے زیادہ قتل کا اعتراف کیا ہے لیکن پولیس کا خیال ہے کہ اس نے اس سے کہیں زیادہ قتل کیے تھے۔ یہ قتل دو مرحلوں میں کیے گئے۔ پہلے سنہ 1965-66 میں اور پھر سنہ 1968 میں۔
پہلے دور میں اس نے دیڑھ درجن سے زیادہ افراد پر حملہ کیا جس میں سے نو لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ باقی بری طرح زخمی ہوئے تھے لیکن کسی طرح بچ گئے۔ وہ اپنے شکار کے سر کو کند پھاوڑے یا کلہاڑی سے کچل دیتا تھا۔ بچ جانے والوں نے اسے اچھی طرح نہیں دیکھا تھا اس لیے اس کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھی اور پولیس اس کو قطعی طور پر گرفتار کرنے سے قاصر رہی۔
ہندی کے اخبار ’جن ستّا‘ کے مطابق وہ پھر سنہ 1968 میں سرخیوں میں آیا جب چند ماہ کے اندر اس نے اسی بہیمانہ انداز میں 27 لوگوں کو قتل کر دیا۔
اس بار مسٹر کلکرنی نے اس کے خلاف بڑا جال بچھایا اور اس وقت مغربی ممبئی کے جس علاقے میں وہ اس قسم کی واردات انجام دے رہا تھا تقریبا دو ہزار پولیس اہلکار گشت کیا کرتے تھے۔
مسٹر کلکرنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ '1968 میں تقریبا ہر روز بہیمانہ قتل کی واردات سامنے آ رہی تھی اور بظاہر یہ قتل بلامقصد نظر آ رہے تھے کیونکہ یہ معمولی اور غریب لوگوں کے قتل تھے لیکن اس کی وجہ سے بمبئی میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔' بہر حال اس وقت تک مسٹر کلکرنی کو ممبئی کرائم برانچ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔
مسٹر کلکرنی لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں یہ قصے مشہور ہونے لگے کہ ’اسے جادوئی قوت حاصل ہے اور وہ بلی یا طوطے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔‘
بہر حال 27 اگست 1968 کو مسٹر کلکرنی کے ایک سب انسپیکٹر نے اس کی شناخت کر لی اور لوگوں کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔
یہ افسر ایلیکس فیالہو تھے۔ ان کی موت پر سنہ 2020 میں شائع ایک رپورٹ میں لکھا گیا کہ 'فیالہو نے کئی کیسز کا پتہ لگایا تھا، لیکن انہیں سیریل کلر رمن راگھو کی گرفتاری کے لیے سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہیں صدر کے پولیس میڈل سے نوازا گیا تھا۔ فیالہو، جو اس وقت ڈونگری پولیس سٹیشن میں پی ایس آئی تھے انہوں نے 1968 میں راگھو کو جنوبی ممبئی کے بھنڈی بازار علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے بعد راگھو نے کم از کم 41 قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
جب اس کی گرفتاری کی خبر اخباروں کی زینت بنی تو بمبئی کے لوگوں نے چین کا سانس لیا۔ مسٹر کلکرنی کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے گھر مبارکباد دینے پہنچے تھے۔
رمن راگھو نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور پولیس افسر کلکرنی کے مطابق اس نے کوئی بات نہیں بتائی۔ اخبار امر اجالا کے مطابق اسے بچپن سے جاننے والوں نے بتایا کہ اسے کوئی خاص بیماری نہیں تھی لیکن اسے بچپن سے ہی چوری کی خراب لت تھی۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے وہ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا۔
امر اجلا کے مطابق وہ خواتین کے ساتھ ریپ بھی کیا کرتا تھا اور اس نے اپنی بہن کا بھی ریپ کیا تھا۔ اس کی شکار ہونے والی ایک زخمی خاتون کریتیکا نے اس کی شناخت بتائی تھی اور پھر رمن راگھو کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ چوری اور ڈاکے کے معاملے میں پانچ سال جیل کی سزا کاٹ چکا تھا۔
چکن کھانے کے بعد اعتراف
