Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیچیدہ مقدمات کے آسان حل ڈھونڈنے والی سکھر کی نوجوان ماہرِ نفسیات

روحابہ فرحان متعدد پیچیدہ نوعیت کے تنازعات کو متعلقین کی نفسیاتی کونسلنگ کر کے حل کر چکی ہیں۔ (فوٹو: ام کلثوم)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں یہ ایک معمول کا گرم دن تھا۔ ہر شعبہ زندگی کے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ پولیس کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں تھا، کیونکہ علاقے میں مجموعی طور پر امن تھا اور اہلکار پُرسکون تھے۔
اسی لیے جب ملک کی ایک بڑی کمپنی کے ایک مقامی مینیجر گھنٹہ گھر کے علاقے کے تھانہ سیکشن اے میں گئے تو متعلقہ آفیسر کا خیال تھا کہ وہ کوئی چھوٹا موٹا واقعہ رپورٹ کرنے آئے ہوں گے۔
واقعہ کوئی اتنا بڑا تھا بھی نہیں، تقریباً نو لاکھ روپے کی چوری کی شکایت تھی، لیکن جب پولیس نے اس کیس کو حل کرنا شروع کیا تو انہیں ایک الگ نوعیت کی مشکل پیش آئی۔
کمپنی کو جس ملازم پر شک تھا کہ اس نے پیسوں کا غبن کیا ہے، وہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا اور اس کے والدین اپنے بیٹے کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے راضی نہیں تھے۔
ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارتی اور اس کے والدین اس سمیت کہیں غائب ہو جاتے۔ لیکن جو ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔
ملزم کے والدین نے خود سکھر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کے دفتر میں ایک خاتون پولیس آفیسر سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اپنے بیٹے کو ان کے حوالے کیا تو وہ اس کے ساتھ برا سلوک کریں گے اور پولیس مقابلے میں مار دیں گے، لہٰذا وہ انہیں کوئی ایسی راہ بتائیں جس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے اور ان کے بیٹے کی جان بھی بچ جائے۔
خاتون پولیس آفیسر شبانہ یاسمین جو ویمن ویلفیئر ڈیسک کی سربراہ ہیں، نے یہ معاملہ ڈی آئی جی سکھر جاوید احمد جسکانی کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے ملزم کے والدین کی پریشانی کا ادراک کرتے ہوئے اسے پولیس کے روایتی طریقوں کی بجائے انسانی جبلت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیس کو حل کرنے کے لیے ہونے والی گفت و شنید کے دوران انہیں علم ہوا کہ ان کے ایک ماتحت ساتھی انسپکٹر فرحان کی بیٹی نے حال ہی میں نفسیات کی تعلیم مکمل کی ہے اور وہ ایک سماجی ادارے سندھ رورل سپورٹ پروگرام کے ساتھ کام کرتے ہوئے متعدد پیچیدہ نوعیت کے تنازعات کو متعلقین کی نفسیاتی کونسلنگ کر کے حل کر چکی ہیں۔ وہ کئی افراد کی زندگیاں مختصر عرصے میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

سندھ پولیس نے کئی مقدمات میں بھی روحابہ فرحان کی خدمات حاصل کی ہیں۔ (فوٹو: ام کلثوم)

انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مقدمے کو حل کرنے کے لیے اور چوری کی رقم تک پہنچنے کے لیے ماہر نفسیات روحابہ فرحان کی خدمات حاصل کریں گے تاکہ ملزم اور اس کے والدین کو پریشان کیے بغیر معاملے کا مثبت نتیجہ نکالا جا سکے۔
روحابہ فرحان نے مقدمے پر کام شروع کیا تو پہلے تو انہیں بہت مشکل پیش آئی۔ نہ صرف یہ کہ ملزم رقم دینے اور چوری تسلیم کرنے پر راضی نہیں تھا بلکہ اس کے والدین بدستور خوفزدہ اور پریشان تھے، اور اسی الجھن میں مکمل تعاون کرنے میں ناکام تھے۔
روحابہ نے کچھ عرصے کے لیے ملزم کو نظر انداز کیا اور اس کے والدین سے رابطہ بڑھا کے ان کے ساتھ مختلف امور پر بات چیت کا آغاز کیا۔ ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ان کو احساس دلایا کہ ان کا بیٹا اسی صورت میں پولیس کی کارروائی سے بچ سکتا ہے جب وہ سب ان کے ساتھ تعاون کریں اور چوری شدہ رقم کی بازیابی کے لیے مدد کریں۔
والدین کا رویہ مثبت ہو جانے کے بعد انہوں نے براہ راست ملزم سے بات چیت کا آغاز کیا اور کچھ ہی دنوں میں اس کو رقم لوٹانے پر آمادہ کر لیا۔
ان کی کونسلنگ سے ملزم اور اس کے والدین اتنے متاثر ہوئے کہ وہ خود تھانے آ کر رقم دے گئے، جو پولیس نے گنی تو اس رقم سے 10 ہزار زیادہ تھی جو چوری ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ انہیں واپس کر دی گئی۔
روحابہ فرحان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب ملزم کسی بھی طرح کے غلط کام سے تائب چکا ہے اور محنت اور لگن کے ساتھ کام کا خواہشمند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک متعدد پیچیدہ معاملات حل کر چکی ہیں، جن میں سے بیشتر ازدواجی معاملات ہیں جن میں جوڑے ایک دوسرے کو طلاق دیتے دیتے دوبارہ اکٹھے ہو کر نئے سرے سے زندگی شروع کر چکے ہیں۔

سات سالہ پریا کماری کے اچانک غائب ہونے کے مقدمے میں بھی پولیس نے روحابہ فرحان کی خدمات حاصل کی ہیں۔ (فوٹو: ام کلثوم)

روحابہ فرحان نے ایک ایسی خاتون کا ایک مشکل ذہنی مسئلہ بھی حل کیا ہے جو ایک حادثے کے بعد شدید قسم کے ذہنی الجھاؤ کا شکار ہو گئیں تھیں، اور کہیں بھی سفر کرنے سے ڈرتی تھی۔ وہ نہ خود سفر کرتیں نہ کسی اور کو کہیں جانے دیتیں۔ جس کی وجہ سے ان کا خاندان شدید پریشانی کا شکار ہو گیا تھا۔ تاہم اب وہ اس الجھاؤ سے باہر آ گئی ہیں اور اب انہیں گھر سے باہر جانے اور سفر سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
یہ مسئلے کامیابی سے حل کرنے کے بعد سندھ پولیس نے اب دیگر کئی مقدمات میں بھی روحابہ کی خدمات حاصل کی ہیں، جن میں سے ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی کمسن لڑکی پریا کماری کا ہے۔
سات سالہ پریا کماری سکھر کے نواحی علاقے سنگرار سے تقریباً دو برس پہلے اچانک غائب ہو گئی تھیں۔
ابھی تک نہ تو کسی نے ان کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا ہے جس سے اندازہ ہو کہ وہ اغوا ہوئی ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت ملا ہے جس سے ان کی موت کی تصدیق ہو۔
بچی کے کم عمر ہونے اور یوں ان کے اچانک غائب ہو جانے کی وجہ سے مقامی ہندو برادری میں خدشات پائے جاتے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً ملکی اور عالمی سطح پر احتجاج کر رہے ہیں۔
پریا کی بازیابی میں تعاون اور اس بارے میں معلومات دینے کے لیے 50 لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور اس کی ملکی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کی گئی ہے۔
اس معاملے میں پولیس کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ پریا کے والدین ان کے ساتھ مطلوبہ تعاون نہیں کر رہے۔

پریا کماری کے والدین پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے گھر میں استعال ہونے والے فون کے پاس ورڈ پولیس کو نہیں دِیے۔ ان کے گھر میں موجود کپڑوں میں ایک غیر متعلقہ شخص کا ڈی این اے ملا ہے لیکن اس شخص سے تفتیش کرنے کی اجازت بھی پولیس کو نہیں دی گئی۔
پولیس اب تک اس معاملے کو حل کرنے میں ناکام اور اس الجھن کا  شکار رہی ہے کہ وہ پریا کماری کے والدین کو کیسے راضی کریں کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ان کی بیٹی کی گمشدگی کا مسئلہ حل ہو سکے۔
اب روحابہ فرحان کو اس معاملے میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ وہ توقع کر رہی ہیں کہ وہ اس مسئلے کو بھی جلد حل کر لیں گی۔
ان کا ماننا ہے کہ لوگوں کے ساتھ مثبت طرزعمل سے بہت سے ناممکن مسئلے بھی حل ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے ذہنی الجھاؤ کو ختم کر کے مثبت سوچوں میں تبدیل کرنے کا نام ہی نفسیات ہے۔

شیئر: