Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کے زیادہ بل اور احتجاج لیکن ’عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں‘ 

40 سالہ زارا لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن میں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ گھر گھر کام کر کے وہ بڑی مشکل سے معاملات زندگی چلا رہی ہیں۔
آئے دن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے، بڑھتی مہنگائی اور بچوں کی تعلیم سمیت دیگر ضروریات سے پریشان زارا کو رواں مہینے اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب انہوں نے اپنا بجلی کا بل دیکھا۔ جو بل کبھی تین سے چار ہزار تک آتا تھا، وہ اب 10 ہزار آیا ہے۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں صبح کام پر اور بچے سکول چلے جاتے ہیں۔ گھر میں صرف ایک پنکھا ہے اور وہ بھی آدھا دن بند رہتا ہے۔ پتہ نہیں میں یہ بل کیسے ادا کر پاؤں گی۔‘ 
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہنسا کالونی کے رہائشی جیشان صادق کے بجلی کا بل تقریباً پانچ گنا زیادہ آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گھر میں پنکھے، فریج اور ٹی وی چلتے ہیں۔ اے سی کی سہولت نہیں ہے۔ جو بل پہلے چھ سے سات ہزار تک ہوتا تھا، وہ اب 36 ہزار آیا۔ 
جیشان کے مطابق چھ افراد پر مشتمل ان کے کنبے میں سے چار افراد کماتے ہیں اور پھر بھی ان کی مجموعی آمدنی کا 40 سے 50 فیصد حصہ بلوں کی ماہانہ ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ 
انہوں نے اپنے ایک پڑوسی کا بھی ذکر کیا جس کی تنخواہ تو 35 ہزار ہے لیکن اس ماہ اس کا بجلی کا بل 80 ہزار آیا ہے اور وہ کافی پریشان ہے۔ 
بجلی کا بل زیادہ آنا صرف چند افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے کئی شہروں میں اس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔  
ایک طرف عوام جہاں مہنگائی اور بجلی کے زیادہ بلوں پر غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں وہی گذشتہ روز پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کی قیمتوں (ٹیرف) میں سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی درخواست کی۔ 

نیپرا نے جولائی میں بجلی کے ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافہ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کے مطابق سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقسیم کار کمپنیاں 146 ارب روپے صارفین سے اضافی ریکور کرنا چاہتی ہیں۔ 
نیپرا نے جولائی میں بجلی کے ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافہ کیا تھا جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے قلیل مدتی قرضہ پروگرام کی منظوری دیتے وقت رکھی گئی ایک شرط تھی۔ 
دو یونٹس کا ساڑھے تین ہزار بل 
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ 
کراچی سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین علی کے مطابق کے الیکٹرک کے خلاف تاجر سڑکوں پر نکل آئے اور بل نہ جمع کروانے کا اعلان کر دیا۔  
شہر کے مختلف علاقوں اور مارکیٹوں میں کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ 
کراچی اولڈ سٹی ایریا میں تاجروں نے بل ادا نہ کرنے پر کے الیکٹرک کے عملے کو کنکشن کاٹنے سے بھی روک دیا۔ 
زیادہ بل کی ایک انوکھی مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب صحافی محمد رضوان کو ایک مضحکہ خیز بل آیا۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کے بند گھر کا بل اس بار ساڑھے تین ہزار روپے آیا ہے جبکہ بل میں درج یونٹس کی تعداد دو ہے۔ یعنی دو یونٹ کا بل ساڑھے تین ہزار روپے ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں کے الیکٹرک اپنی مرضی سے صارفین سے پیسے وصول کر رہی ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ایک بار بل اگر سسٹم میں بن جائے تو وہ ادا کرنا ہی کرنا ہے۔ کے الیکٹرک سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ بل کی قسطیں کروا لیں۔ سسٹم میں بل بن گیا ہے تو جمع کروانا ہی ہو گا۔‘ 

مہنگائی اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے عوام شدید پریشان ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبہ خیبر پختونخوا میں مظاہرے 
مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 
پشاور سے اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض احمد کے مطابق ایبٹ آباد، چارسدہ، نوشہرہ، کوہاٹ اور مردان میں بڑی تعداد میں شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ 
پشاور میں مسلم ٹاؤن، گلبہار چوک اور پشاور پریس کلب کے باہر شہریوں نے احتجاج کے دوران بل نذرآتش کیے۔  
تاجر برادری کی جانب سے قصہ خوانی بازار میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا جس میں تاجر سیاہ پٹیاں پہن کر شریک ہوئے۔ 
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے ورنہ صوبے بھر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ 
’سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی آپشن نہیں‘ 
کیا بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ رک پائے گا اور عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا، اس حوالے سے معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا نے کہا کہ ’بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ ایسے ہی جاری رہے گا۔‘ 
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی ہے لیکن پاور سیکٹر کی اپنی ناکامی بھی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے نقصانات کم کرنے اور بجلی کی چوری روکنے میں ناکام رہی ہیں۔‘ 
اس سوال پر کہ کیا نگراں حکومت یا آئندہ آنے والی کوئی منتخب حکومت اس ضمن میں عوام کو ریلیف دے سکتی ہے؟ شہباز رانا نے کہا کہ ’نگراں حکومت کا تو یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے جبکہ کوئی بھی حکومت اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔‘ 
انگریزی اخبار سے وابستہ معاشی امور کے سینیئر صحافی خلیق کیانی کے مطابق ’انہیں بجلی کی قیمت کے حوالے سے کوئی ریلیف نظر نہیں آتا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی، فیول کی قیمتوں میں اضافے اور پاور سیکٹر کی ناکامی کی وجہ سے مسلسل قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

صنعتکاروں کے مطابق مہنگی بجلی کے باعث پیداواری اخراجات میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ہزاروں بل نذرِآتش 
بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ صرف ملک کے بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے زیرِانتطام کشمیر میں رواں برس مئی سے مہنگی بجلی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔ 
اس حوالے سے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والت صحافی حارث قدیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ مہنگی بجلی کے خلاف یہ تحریک سنہ 2010 میں شروع ہوئی تھی اور ہر دو برس بعد یہ زور پکڑ لیتی ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت کشمیری حکومت سے 15 پیسے پر یونٹ کے حساب سے بجلی خریدتی ہے اور پھر اسے دو روپے 69 پیسے میں بیچتی ہے، جبکہ عوام کو بل نیپرا کے چارجز کے مطابق ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘ 
’یہاں منگلا ڈیم، نیلم جہلم پروجیکٹ اور دوسرے ہائیڈرو پروجیکٹس کو ملا کر 33 سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے جو نیشنل گرڈ میں جاتی ہے۔ ہماری ضرورت 355 میگا واٹ ہے اور اس میں سے بھی 172 میگا واٹ مقامی حکومت خود پوری کر رہی ہے۔‘ 
اس تحریک کے حوالے سے حارث قدیر کا کہنا تھا کہ یہ تحریک رواں برس 9 مئی کو راولاکوٹ سے شروع ہوئی تھی اور اسے 109 دن ہو چکے ہیں۔ راولا کوٹ کے نواحی علاقوں میں بھی لوگوں نے دھرنے دیے ہیں جبکہ 30 سے زائد مقامات پر اس وقت احتجاج جاری ہے۔ 
’ان مظاہروں میں ہزاروں افراد شرکت کر چکے ہیں اور ابھی تک 25 سے 30 ہزار بجلی کے بلوں کو نذرِآتش کیا جا چکا ہے اور باقی بھی جمع ہو رہے ہیں۔ 31 اگست کو مظفرآباد میں مظاہرہ ہو گا اور بل جلائے جائیں گے۔‘ 
حکومتی ردعمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی حکومت نے اس حوالے سے ابھی تک تحریک کے لوگوں سے براہ راست کوئی مذاکرات نہیں کیے بلکہ وہ اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘ 

شیئر: