Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’راکٹ لانچرز اور مارٹرز کا استعمال‘، بحریہ ٹاؤن پشاور کا تنازع کیا ہے؟

ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سلیم ایوبی کے مطابق ’بحریہ ٹاؤن کو تمام قانونی قواعد و ضوابط پورے کرنے کے بعد کام کی اجازت ملے گی’ (ٖفائل فوٹو: ڈی سی پشاور)
بحریہ ٹاؤن پشاور پر اس وقت تمام سرمایہ کاروں کی نظریں مرکوز ہیں مگر اس کے افتتاح کے ساتھ ہی یہ منصوبہ تنازعات کی زد میں آگیا ہے۔ ایک جانب اس کے لیے منتخب زمین پر دو فریقین میں شدید لڑائی چل رہی ہے تو دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو این او سی جاری نہیں کیا جا رہا۔
پشاور بحریہ ٹاؤن کے لیے متھرا کے علاقے میں واقع کافور ڈھیری کا انتخاب کیا گیا جس پر سابق ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محمود جان کے خاندان اور قوم عیسیٰ خیل کے درمیان کئی برسوں سے تنازع چل رہا ہے۔
اس لڑائی کی اصل وجہ قوم عیسیٰ خیل کی کافور ڈھیری پر دعوے داری ہے، فریقین کئی برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور موقعہ ملتے ہی ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔
پشاور میں بحریہ پروجیکٹ کے افتتاح اور خصوصاً فارم کے اجرا کے ساتھ ہی گذشتہ ایک ہفتے سے عیسیٰ خیل اور خانان کی لڑائی میں تیزی آگئی ہے۔
ایس پی ورسک سرکل ارشد خان کے مطابق ان دونوں فریقین کی لڑائی برسوں پرانی ہے جس میں اب تک نو انسانی جانیں چلی گئی ہیں جبکہ 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی کے 31 مقدمات درج ہیں جن میں 55 افراد مختلف دفعات کے تحت گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔
ایس پی ورسک کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ چند روز سے پھر جھڑپ چل رہی ہے، تاہم فی الوقت فائرنگ کا سلسلہ رک چکا ہے مگر مکمل جنگ بندی نہیں ہوئی، پولیس کی کوشش ہے کہ معاملہ پُرامن طریقے سے حل ہو جائے۔‘
خیبر پختونخوا اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محمود جان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عیسیٰ خیل کی جانب سے بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، گذشتہ آٹھ دنوں میں میرے چار غریب زمین داروں کو قتل کیا گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہے، آخر حکومت کی رٹ کہاں ہے؟‘
سابق ڈپٹی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ ’میگا ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے ان کو لڑوایا جا رہا ہے لیکن ہم حق پر ہیں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
’سنہ 1870 سے یہ تمام اراضی کافور ڈھیری کے خانان کی ملکیت ہے، اس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، کچھ طاقتور لوگ یہ زمین ہتھیانا چاہتے ہیں مگر ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘
کافور ڈھیری کے رہائشی جمشید علی نے کہا کہ ’عیسیٰ خیل قوم اور خانان قوم میں لڑائی روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے، گذشتہ تین چار دن سے راکٹ لانچرز اور مارٹرز کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے۔ اب تک چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دھماکوں کی آوازیں پشاور کے مرکز میں سنائی دیتی ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان اور قوم عیسیٰ خیل مشران کے درمیان 2022  میں امن معاہدے پر حلف لیا گیا تھا (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

بحریہ ٹاؤن کے پاس این او سی نہیں

پشاور بحریہ ٹاؤن کی راہ میں ایک رکاوٹ این او سی کا نہ ہونا ہے۔ ضلعی انتظامیہ پشاور نے اس حوالے سے متھرا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ڈپٹی کمشنر کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سلیم ایوبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بحریہ ٹاؤن سوسائٹی کے پاس این او سی موجود ہے اور نہ ہی زمین خریدی گئی ہے، اس لیے اس کے دفاتر کو سیل کردیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تمام قانونی قواعد و ضوابط پورے کرنے کے بعد دفاتر کھولنے یا کام کرنے کی اجازت ملے گی۔‘
نگراں صوبائی وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال نے دو روز قبل 13 ستمبر کو پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ متھرا میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ حکومتی ادارے معاملے کو حل کرنے کے لیے تمام آپشنز پر غور کریں گے۔‘

عوام نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں خرید وفروخت سے گریز کریں

بیرسٹر فیروز جمال کے مطابق ’بحریہ ٹاؤن اور پشاور سٹی ہاؤسنگ کے پاس زمین ہے اور نہ ہی این او سی، لہٰذا عوام کسی بھی قسم کے لین دین سے گریز کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کے دفاتر کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے جبکہ بل بورڈز اور اشتہارات کو ہٹانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔‘

بحریہ ٹاؤن کے سرمایہ کاروں کا ردعمل

اس معاملے پر بحریہ ٹاؤن سوسائٹی کے سرمایہ کار نادر خان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے ابھی تک پلاٹ نہیں بیچا نہ پیش کش کی ہے، بلکہ صرف ممبرشپ فارم فروخت کیے ہیں جو ہر کمپنی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن فارم پر لکھا ہے کہ یہ فارم مارکیٹ سروے یا ممبرشپ رجسٹریشن کے لیے ہے۔
’بحریہ ٹاؤن کی جانب سے تمام قواعد و ضوابط پورے کیے جائیں گے اور این او سی کے بعد ہی پلاٹس فروخت جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا یہ کوئی معمولی پروجیکٹ نہیں ہے اس پر ابھی تک اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے فارم بلیک میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک فروخت ہو رہے ہیں (فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن)

ریئل سٹیٹ انویسٹر نادر خان کے مطابق بحریہ سکیم سے پشاور کے غریبوں کو فائدہ ہو گا، 10 ہزار ملازمتیں ملیں گی اور سرمایہ کاری ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیر اطلاعات کو کسی نے غلط بریف کیا ہے، ہم ان کے دفتر جا کر ان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے فارم جاری کر دیے گئے ہیں جن کی مقررہ قیمت 70 ہزار روپے ہے، مگر ابھی سے مارکیٹ میں زیادہ طلب کے باعث بلیک میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔

شیئر: