گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ کی عطا اباد جھیل کے نیلگوں پانیوں پر ایک خاتون ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں سے پرواز کرتے ہوئے اترتی دکھائی دیتی ہے۔ اسے وہ اپنی زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ سمجھتی ہے۔
مخصوص لباس میں ملبوس غیرملکی خاتون کا کھلی فضاؤں میں پہاڑوں اور گھاٹیوں کے درمیان پرندوں کی طرح مہارت سے محو پرواز ہونے کے مناظر پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پر حیرت اور تجسس سے دیکھے جا رہے ہیں۔
امبر فورٹی کا تعلق ناروے سے ہے۔ وہ پچھلے ایک ماہ سے ہنزہ، نگر اور گوجال کے علاقوں میں پہاڑی گھاٹیوں اور عطا آباد جھیل کے پہلو میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے کے بعد وطن واپس لوٹ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
عالمی ریسلنگ باڈی نے انڈین فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دیNode ID: 790491
-
تاریخ میں پہلی مرتبہ، ایرانی ٹی وی پر سعودی فٹبال لیگ کی نشریاتNode ID: 792651
کھلی فضاؤں میں پرندوں کی طرح پرواز کرنے کی انسانی جستجو اور خواہش زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔
ونگ سوٹ فلائنگ نامی کھیل نے اس تصور کو حقیقت کا روپ دیا ہے۔
پیشہ ور ونگ سوٹ پائلٹ امبر فورٹی نےاپنے شوق کی تکمیل کے لیے پاکستان کے شمال میں واقع راکا پوشی اور ہنزہ کے پہاڑوں کا انتخاب کیوں کیا؟
اردو نیوز سے ٹیلی فون پر گفتگو میں انہوں نے پاکستان میں ونگ سوٹنگ کے تجربے کو یادگار قرار دیا۔

’میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اتنے حیران کن نظاروں اور پہاڑوں کے درمیان میں اپنے پیشہ ورانہ کھیل سے اس طرح لطف اندوز ہو سکوں گی۔‘
ونگ سوٹ فلائنگ کیا ہے؟
یہ ایک مہنگا اور مہارت کا حامل کھیل ہے جس میں کھلاڑی بلندی سے کود کر فضا میں پرواز کرتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے کھلاڑیوں کو دونوں بازوں اور ایک ٹانگ میں خاص مٹیریل سے بنے پر نصب کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مخصوص ساخت اور تکنیک کھلاڑیوں کو کھلی فضا میں پرندوں کی طرح اڑنے میں مدد دیتی ہے۔ آخر میں وہ پیراشوٹ کھول کر زمین پر اتر جاتے ہیں۔
امبر فورٹی دنیا کی تیز رفتار ونگ سوٹنگ خاتون کھلاڑی ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ وہ ناروے کی ٹیم کی پہلی خاتون کھلاڑی ہیں جنہوں نے اس کھیل کے عالمی مقابلے میں سلور میڈل جیتا۔
اپنے دورہ پاکستان اور اس کھیل کے امکانات کے بارے میں انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ قرا قرم کے بلند و بالا پہاڑ اس کھیل کے لیے قدرتی میدان جیسے ہیں۔ جن میں اس کھیل کے لیے قدرتی ماحول اور مواقع موجود ہیں۔
انہیں لوگ لڑکا سمجھتے رہے
وہ پاکستان کا سفر کرتے وقت بہت سارے خدشات کا شکار تھیں۔ ان کے مطابق وہ پہلی بار کسی مسلمان ملک کی سیر کو جا رہی تھی۔
امبر کے گمان میں تھا کہ شاید انہیں یہاں سر کو ڈھانپنا اور پوری آستینوں والے کپڑے پہن کر باہر نکلنا پڑے گا۔ مگر اپنی وضع قطع کی وجہ سے بالکل مختلف تجربے سے دو چار ہوئیں۔
