’ہِِچ ہائیکنگ‘ سے دنیا کا سفر کرنے والے شبھم نومیڈ
’ہِِچ ہائیکنگ‘ سے دنیا کا سفر کرنے والے شبھم نومیڈ
جمعرات 28 ستمبر 2023 6:58
راحِل مرزا -نئی دہلی
نومیڈ شبھم کے ساتھ سفر کرنے والی دو رُوسی لڑکیوں کا تعلق بھی کاؤچ سرفنگ جیسی ویب سائٹ سے ہے (فائل فوٹو: شبھم نومیڈ فیس بُک)
انڈیا کی ریاست راجستھان کا شہر کوٹا جو ویسے تو ملک بھر میں طالب عملوں کی کوچنگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن آج کل وہاں سے سٹوڈنٹس کی خودکشیوں کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ لیکن انہی خبروں کے درمیان اسی شہر سے جڑی ہوئی ایک ایسی کہانی بھی ملتی ہے جو نہ صرف مختلف بلکہ حوصلہ افزا بھی ہے۔
یہ کہانی ہے ’ہِچ ہائیکنگ کے بادشاہ‘ کہلانے والے نومیڈ یا خانہ بدوش شبھم یادو کی جن کے لیے سفر حقیقت کی قید سے فرار نہیں بلکہ سفر ہی حقیقت ہے۔ اگر کوئی شہر شبھم یادو کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، تو وہ یہ ہے:
ایک بیگ، چار جوڑے کپڑے، کیمرہ اور ٹینٹ، یہ ان کی کل کائنات ہے۔
ریاست بہار کے بھاگلپور میں 2002 میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کا نام شبھم یادو ہے جنہیں دنیا اب نومیڈ شبھم کے نام سے جانتی ہے۔
سنہ 2017 میں شبھم بھی اس سفر پر تھے جس پر ہزاروں انڈین طلبہ سفر کرنے پر مجبور رہتے ہیں، یعنی شمالی انڈیا کا شہر کوٹا جہاں کی کوچنگ کلاسز آپ کو انڈیا کے باوقار انجینیئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ شبھم بھی اس بھیڑ میں کبھی اپنے عزائم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔
لیکن سب کچھ اس وقت بدل گیا جب انہوں نے ’بغیر پیسے دنیا کا سفر کیسے کریں‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو دیکھی۔ یو ٹیوبر ٹراولر تومسلو پرکو کی تیارکردہ ویڈیوز میں اس بات کو پیش کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص ہِچ ہائیکنگ یعنی ’کسی سے لفٹ مانگ کر‘ کس طرح سفر کر سکتا ہے۔
شبھم بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس وقت تک کبھی کسی جگہ کا سفر نہیں کیا تھا لیکن کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ہِچ ہائیکنگ کیا ہے لیکن میں اسے سمجھنا چاہتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد راجستھان میں ہی میں نے ہِچ ہائیکنگ شروع کی اور یہ سفر 670 کلومیٹر پر محیط کوٹا سے جیسلمیر تک کا تھا۔‘
شبھم یادو مزید کہتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ میں اپنے پہلے سفر کے بعد خود کو روک نہیں سکوں گا اور وہی ہوا۔‘
شبھم یادو اپنی ایک ویڈیو میں بتاتے ہیں کہ ’میں نے زمین پر 55 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر صرف ہِچ ہائیکنگ کے ذریعے کیا ہے۔‘
چار سال سے بھی کم عرصے میں دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک کا دورہ کرنے سے لے کر کئی روز تک صحرا میں بھٹکنے اور تو اور جیل بھی جانے کی نوبت آنے، اور ہزاروں مشکلوں کے بعد بھی سفر جاری ہے۔
شبھم یادو سے نومیڈ شبھم بننے کی کہانی بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا نام نومیڈ (خانہ بدوش) شبھم اس وقت رکھا جب میں 2019 میں منگولیا کے صحرا میں خانہ بدوشوں کے ایک قبیلے سے ملا۔‘
ان کے مطابق ’میں صحرا میں ایک خانہ بدوش کی حیثیت سے رہ رہا تھا جس کے پاس نہ کوئی رابطہ تھا نہ ہی مقامی زبان کا کوئی علم۔ تین دن تک مستقل چلنے کے بعد میرے پاس پانی ختم ہو گیا۔‘
’خوش قسمتی سے مجھے ایک قبیلہ مل گیا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے میں نے مدد مانگی۔ میں نے اپنا یوٹیوب چینل اسی دوران منگولیا میں شروع کیا اور اس طرح شبھم یادو سے میں نومیڈ شبھم ہو گیا۔‘
یادو کا یوٹیوب چینل بھی ان ہی جیسا ہے، سادہ، بے ساختہ اور کہانیوں سے بھرا ہوا۔ وہ عام طور پر اپنی ویڈیوز میں ہندی ہی بولتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ چینل کی بڑے پیمانے پر کامیابی میں زبان کی بڑی اہمیت ہے۔
شبھم کی کہانی کوئی دھوکہ دینے والی نہیں ہے، شبھم ہِچ ہائیکنگ میں جنوبی ایشیا کی نمائندگی کر چکے ہیں، یہ بات انہیں بہت سے افراد کے لیے ایک رول ماڈل بناتی ہے جو بغیر پیسوں کے دنیا دیکھنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
یادو کا طریقہ کار سادہ ہے
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ سفر کے بارے میں زیادہ سوچتے نہیں یا اس ملک کے بارے میں معلومات مہیا نہیں کرتے کہ کن کن دستاویزات کی ضرورت ہوگی اور محض ویزا اپلائی کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے سڑک کے کنارے کئی دن اس انتظار میں گزار دیے کہ کوئی مجھے لفٹ دے گا۔ ’ایک بار قازقستان میں مجھے ایک شخص سے لفٹ ملی۔‘
’بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ دراصل شہر کے میئر تھے۔ یہاں تک کہ وہ مجھے اپنی مقامی پارلیمنٹ کی عمارت تک بھی لے گئے۔‘
شبھم بتاتے ہیں کہ ’کئی بار مجھے سڑک کے کنارے گیس سٹیشنوں، فائر سٹیشنوں یا یہاں تک کہ پولیس سٹیشنوں میں بھی سونا پڑا ہے۔‘
سائبیریا کے برفیلے پانیوں میں تیراکی سے لے کر کمبوڈیا میں سرفنگ تک، کوئلہ لے جانے والے روسی ٹرک میں ایک دن گزارنے تک، نومیڈ شبھم کا سفر دلکش مہم جُوئی سے بھرا ہوا ہے جو کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کبھی کوئی منصوبہ نہیں بناتا۔ خوش قسمت ہوں میں، لوگ مجھے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ مجھے اپنے میزبانوں نے شادیوں میں بھی مدعو کیا ہے۔ ایک بار، مجھے جنازے میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔‘
بعض اوقات، وہ کاؤچ سرفنگ پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو آپ کو مقامی افراد سے جوڑتی ہے جو مسافروں کو بغیر کسی معاوضے کے اپنے ہاں رہائش کا موقع دیتی ہے اور اس کے بدلے کاموں میں مدد لیتی ہے۔
ایک ویڈیو میں وہ اپنے اخراجات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں یہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ میں فلائٹ کے بغیر یعنی ہِچ ہائیکنگ سے کتنی دور تک جا سکتا ہوں۔‘
’چونکہ فلائٹ کا خرچ زیادہ ہوتا ہے لہٰذا میں انڈیا سے بنگلہ دیش، میانمار، آذربائیجان، منگولیا، جنوبی افریقہ، قازقستان اور یہاں تک کہ روس صرف زمینی راستے سے یعنی ہِچ ہائیکنگ کرتا ہوا پہنچ گیا۔‘
شبھم نے ہر روز کے حساب سے اپنے اخراجات کو تقسیم کر رکھا ہے اور وہ ایک دن میں صرف 500 انڈین روپے کھانے رہائش اور دیگر ضروریات پر خرچ کرتے ہیں۔
شروع میں وہ بچوں کو آن لائن ریاضی پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کرتے تھے۔ وہ اب بھی ایسا کرتے ہیں لیکن اب ان کے لیے یو ٹیوب بھی آمدن کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
وبائی بیماری کووڈ 19 کے دوران وہ آذربائیجان میں پھنسے رہے، اسی دوران ان کا عراق کا ویزا بھی رد کر دیا گیا، عراق کا دورہ ان کے ابتدائی خوابوں میں سے ایک تھا۔
وبا کے بعد انہوں نے عراق کا دورہ بھی کیا اور ان کا باقی سفر خوش کن کہانیوں سے بھرا ہوا ہے جیسے نادانستہ طور پر مقامی منشیات کو آزمانا، مقامی پکوانوں کے سے لُطف اندوز ہونا، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نمٹنا۔
عراق میں وہ چند روز پولیس حراست میں بھی رہے۔ شبھم یادو کو مقامی زبان سمجھنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات گوگل ٹرانسلیٹ کا سہارا لیا اور کام چلانے کے لیے چند زبانیں انہوں نے سیکھ بھی لی ہیں۔
نومیڈ شبھم کے ساتھ دو رُوسی لڑکیاں بھی سفر کرتی دیکھی جاتی ہیں۔ ان میں ایک جُولیا اور دوسری ناستیہ ہیں۔ ان دونوں کا تعلق بھی کاؤچ سرفنگ جیسی ویب سائٹ سے ہے۔
ان کی طرح دنیا میں اور افراد بھی ہیں جو مسلسل سفر کر رہے ہیں۔ فی الحال وہ اپنے نانا نانی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ روس کے سفر پر ہیں۔
اسی طرح کی کہانی امریکی شہری اینجیلا میکسویل کی ہے جنہوں نے اپنے اچھے خاصے بزنس کو چھوڑ کر 30 کی دہائی میں دنیا کا پیدل سفر کرنے کا تہیہ کیا اور 2013 میں گھر سے نکل پڑیں۔
تاہم ویزے کے مسائل اور کووڈ کی وبا کی وجہ سے ان کا مشن تاخیر کا شکار ہو گیا لیکن پھر بھی وہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے میں کامیاب رہیں۔ ان کی کہانی پھر کبھی۔