Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغیر ہوائی سفر کیے دنیا کے تمام ممالک گھومنے والا شخص اپنے گھر واپس پہنچ گیا

اپنے اس سفر سے پہلے ٹوربون شِپنگ اور لوجسٹک کے شعبے میں کام کرتے تھے۔ (فوٹو: ٹوربون پیڈرسن انسٹاگرام)
سیاحت ہماری دنیا کا اہم شعبہ ہے، دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں افراد گھومنے پھرنے کے لیے اُڑان بھرتے ہیں تاہم ڈنمارک سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے ہوائی جہاز کے سفر کے بغیر ہی پوری دنیا دیکھ لی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ٹوربون تھور  پیڈرسن نامی شخص نے 2013 میں اپنی نوکری، گرل فرینڈ اور فیملی کو ڈنمارک میں چھوڑتے ہوئے پوری دنیا دیکھنے کے سفر کا آغاز کر دیا۔
اس سفر کے دوران ٹوربون پیڈرسن نے اپنے لیے کچھ اُصول طے کیے کہ وہ ہر ملک میں کم از کم 24 گھنٹے رہیں گے اور جب تک وہ دنیا کے تمام ممالک نہیں دیکھ لیتے، تب تک وہ گھر واپس نہیں جائیں گے۔
انہوں نے اپنے سفر کے دوران اپنے اخراجات بھی کم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد وہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 20 ڈالر خرچ کرتے تھے۔
رواں برس 24 مئی کو بالآخر وہ دن آگیا جب پیڈرسن 10 سال کے طویل سفر کے بعد اپنا 203واں اور آخری ملک مالدیپ دیکھنے کے بعد اپنے وطن ڈنمارک واپس جانے کے لیے واپسی کا سفر باندھنا شروع کیا۔
اگر وہ یہ سفر پروازوں کے ذریعے کرتے تو شاید اُن کے لیے آسان ہوتا تاہم انہوں نے اپنے سفر کو اُسی طرح مکمل کرنا چاہا جیسا وہ چاہتے تھے۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اپنے گھر (ملک) بحری جہاز کے ذریعے واپس آنا ایک تاریخی احساس ہے۔ جب جہاز پہنچ رہا تھا تو وہاں لوگ میرے استقبال کے لیے کھڑے تھے جو میری طرف ہاتھ ہلا رہے تھے۔ مجھے یہی لگا کہ اس طرح وطن واپس آنا ہی اس سفر کو مکمل کرنے لیے موزوں طریقہ تھا۔‘
 
ٹوربون پیڈرسن اپنا تاریخی سفر مالدیپ میں ختم کرنے کے بعد وہاں سے براستہ سری لنکا، ملائیشیا کے لیے ایک بڑے کنٹینر شِپ پر روانہ ہوئے۔ گھر واپس جانے کے لیے اس کنٹینر شِپ پر انہیں 33 دنوں کا سمندری سفر کرنا پڑا۔
پوری دنیا دیکھنے کے بعد جب وہ گھر جانے کے لیے کنٹینر شِپ پر بیٹھے تو انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ گھر ہی جا رہے ہیں۔ 
اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ’بے شک اُس وقت میری ٹانگ بھی ٹوٹ جاتی تو مجھے یقین تھا کہ میں اب گھر پہنچ ہی جاؤں گا۔ اب نہ کوئی مزید سانپ ہوں گے، نہ جنگلی کتے، نہ ملیریا اور نہ مجھے ویزہ لینے کی دشواریاں ہوں گی۔‘
 
ٹوربون پیڈرسن 24 جولائی کو ڈنمارک کی آرہس بندرگاہ پہنچے جہاں اُن کا استقبال کرنے کے لیے تقریبا 150 افراد موجود تھے۔ اُن افراد میں اُن کے والد، بہن بھائی، دوستوں اور پروجیکٹ پارٹنر سمیت اہلیہ بھی موجود تھیں جن سے انہوں نے 2016 میں کینیا میں شادی کی تھی۔
 
اپنے وطن واپسی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں واپس آیا تو میں نے کئی اشکبار آنکھیں دیکھیں۔ لوگ مجھے روتے ہوئے گلے لگا رہے تھے۔ مجھے بہت سے تحائف ملے جن میں ڈنمارک کی بیئر، دودھ اور کھانے وغیرہ شامل تھے۔ میں اُن لوگوں سے ملا جو مجھے سوشل میڈیا پر کولمبیا، آسٹریلیا، ناروے وغیرہ سے فالو کر رہے تھے۔ یہ بہت شاندار لمحہ تھا۔‘
اپنے گھر والوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹوربون کا کہنا تھا کہ ’میری فیملی کو مجھ پر بہت فخر ہے۔ مجھے اُن سے بہت پیار ملا ہے۔ گھر واپس آنے کے بارے میں میں کافی وقت سے سوچ رہا تھا، لیکن اب گھر واپس آنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سفر تو ختم ہوگیا ہے، اب آگے کیا کرنا ہے۔‘
خیال رہے اپنے اس سفر سے پہلے ٹوربون شِپنگ اور لوجسٹک کے شعبے میں کام کرتے تھے۔
 

شیئر: