Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپان کا جراثیموں سے امریکہ کو ختم کرنے کا منصوبہ کیسے ناکام ہوا؟

یونٹ 731 نے چین میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کے حوالے سے خاصا کام کیا تھا۔ (فوٹو: العربیہ)
امریکی بحری بیڑے پرل ہاربر پر سات دسمبر 1941 کو جاپانی حملے کی تلخ یادیں اس لیے فراموش نہیں کی جا سکتیں کہ اس حملے کے بعد ہی دوسری جنگ عظیم کا دائرہ بحرالکاہل تک پھیلا اور امریکہ نے باضابطہ طور پر اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو اس سے قبل غیر جانبدار تھا۔
العربیہ کے مطابق امریکہ اور جاپان دونوں ملک کوشاں تھے کہ کسی طور پر بھی اس جنگ میں برتری حاصل کی جا سکے جس کے لیے جاپان نے حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کے علاوہ اسے امریکہ میں استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کیا مگر اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
جون 1942 میں مڈ وے کی لڑائی کے چھ ماہ بعد جنگ کا دائرہ کسی حد تک محدود ہونے لگا تھا۔ اس عرصے کے دوران جاپان اپنے چار بڑے طیارہ بردار بحری جہازوں سے محروم ہو چکا تھا اور جاپان کو بحرالکاہل کے محاذ پر ناکامی کا سامنا تھا۔
ان حالات میں جاپانی قیادت نے امریکی شہریوں پر حیاتیاتی بم گرانے کا فیصلہ کیا اور ان کا خیال تھا کہ وہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال سے اس جنگ کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور واشنگٹن کو مجبور ہوکر ہتھیار ڈالنے ہی پڑیں گے۔

731 بریگیڈ  

جاپانی بحریہ نے ایڈمرل جسابورو اوزاوا کی تجویز پر 1944 میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کے حملے کا باقاعدہ منصوبہ مرتب کیا جسے پی ایکس کا نام دیا گیا تھا جس کے ذریعے طاعون کے وائرس کو پھیلایا جانا تھا۔
اس مہلک منصوبے کی تیاری کے دوران جاپانی بحریہ نے سرجن مائیکرو بیالوجسٹ جنرل شیرو ایشی کی تحقیق پر کافی انحصار کیا جنہوں نے کافی عرصے تک یونٹ 731 کی قیادت کی تھی جو متعدی اور مہلک بیماریوں کے پروگرام پر کافی کام کر چکا تھا۔
یونٹ 731 نے چین میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کے حوالے سے خاصا کام کیا تھا۔ یونٹ نے ان ہتھیاروں پر غیرمعمولی تحقیق کی تھی کہ انسانوں میں طاعون اور چیچک جیسی بیماری کو پھیلانے کے لیے جراثیموں کو کس طرح منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔  

یو جی 50 نوعیت کے سیرامک سے بنائے گئے بموں کا تجربہ چینی آبادی پر کیا گیا۔ (فوٹو: العربیہ)

اس بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یونٹ 731 کے ان تجربات کے دوران پانچ لاکھ چینی مارے گئے تھے۔
دوسری جانب یونٹ 731 اس حوالے سے مکمل طور پر تربیت حاصل کرچکا تھا اور وہ یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ محض چند دنوں میں 60 پاؤنڈ جرثومے پیدا کر سکے جو ’پسوؤں‘ کے جسموں میں زندہ رہ سکتے تھے جن سے طاعون جیسی مہلک وبا پھیل سکتی تھی۔ مذکورہ یونٹ نے ان مخصوص پسوؤں کا سٹاک بھی اپنے پاس تیار رکھا جو جرثومے کی منتقلی کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے تھے۔
یو جی 50 نوعیت کے سیرامک سے بنائے گئے بموں کا تجربہ چینی آبادی پر کیا گیا جس سے وبائی امراض پھوٹ پڑے کیونکہ جراثیم زدہ پسو گھروں اور دکانوں میں پائے جانے والے چوہوں کے جسموں پر چپک جاتے تھے جس سے طاعون کی وبا پھیل گئی۔

کیلیفورنیا پر جرثوموں کی بمباری  

جاپانی منصوبے کے مطابق آبدوزوں کو بحرالکاہل کے امریکی شہروں کی طرف جانا تھا جہاں سے ایم 6 اے سیران جہاز کے ذریعے امریکی شہروں کو نشانہ بنانا آسان ہدف ہوسکتا تھا۔
منصوبے کے تحت مذکورہ جہازوں کے ذریعے جرثوموں کے حامل ان بموں کو امریکی شہروں میں گرایا جانے کا منصوبہ تھا۔ دوسری جانب اس عسکری مہم کو ’خود کش‘ کا کوڈ نام دیا گیا تھا کیونکہ جاپانیوں کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ اس مہم میں شامل افراد کی موت یقینی ہے خواہ وہ امریکی گولیوں سے مارے جائیں یا اس کی وجہ طویل عرصے تک طاعون زدہ پسوؤں کے ساتھ رہنا ہی کیوں نہ ہو۔

مڈ وے جنگ کے دوران امریکی لڑاکا طیارے۔ (فوٹو: العربیہ)

جاپان کی جانب سے منصوبہ مکمل ہو چکا تھا جسے اب پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا اور جاپان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے 26 مارچ 1945 کو کیلیفورنیا پر بائیولوجیکل بموں سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر جاپانی بحریہ کو عین آخری لمحات میں جنرل یوشیجیرو اومیزو کی شدید مزاحمت پر اس منصوبے پر عملدرآمد سے روک دیا گیا کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ حملہ امریکہ اور جاپان کی دشمنی سے زیادہ انسانیت کی دشمنی پر مبنی ہو گا۔
جنگ میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے بعد یونٹ 731 کے سربراہ شیرو ایشی نے ایک بار پھر اپنا منصوبہ پیش کیا کہ جاپان میں موجود امریکی افواج پر بائیولوجیکل حملہ کیا جائے مگر جنرل یوشیجیرو او میزو کی جانب سے شدید مزاحمت پر دوسری بار بھی اس منصوبے پرعمل نہ کیا جا سکا۔

شیئر: