Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسیان اور خلیج تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس، شرکا کی ریاض آمد

کانفرنس کا مقصد فریقین کے درمیان سٹریٹیجک شراکت اور نئے مواقع دریافت کر کے تعاون کو عروج کی نئی منزلوں تک پہنچانا ہے۔ (فوٹو، ایس پی اے)
آسیان ایسوسی ایشن اور خلیجی تعاون کونسل میں شامل ممالک کی سربراہ کانفرنس آج ریاض میں منعقد ہو رہی ہے۔
قائدین کی مملکت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تاریخی کانفرنس ہو رہی ہے جس کا مقصد فریقین کے درمیان سٹریٹیجک شراکت اور نئے مواقع دریافت کر کے تعاون کو عروج کی نئی منزلوں تک پہنچانا ہے۔ 
سعودی خبررساں ادارے ایس پی اے اور الشرق الاوسط کے مطابق جی سی سی ممالک اور آسیان ایسوسی ایشن میں شامل ممالک کے تعلقات کی تاریخ مارچ 1986 کو اس وقت شروع ہوئی جب خلیج تعاون تنظیم نے اپنے 18 ویں سیشن میں آسیان ایسوسی ایشن کے ساتھ ابتدائی رابطے کی منظوری دی۔
اس موقع پر آسیان کے ساتھ اقتصادی مکالمہ شروع کرنے اور دوطرفہ تعاون کے استحکام کی تدابیر پر تبادلہ خیال کی بھی منظوری دی گئی تھی۔ 
جمعے کو ہونے والی ریاض سربراہ کانفرنس 2028-2024 پنج سالہ مشترکہ تعاون کے فریم ورک کی منظوری دے گی جس کے تحت فریقین سیاسی، اقتصادی، سرمایہ کاری اور امن و سلامتی کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ علاوہ ازیں سیاحت، توانائی، فوڈ سکیورٹی، زرعی خودکفالت اور اجتماعی و ثقافتی تعاون بھی کریں گے۔ 
آسیان ایسوسی ایشن میں جو 1967 کو قائم ہوئی تھی انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، برونائی، کمبوڈیا، لاوس، میانمار اور ویتنام شامل ہیں جبکہ جی سی سی سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور سلطنت عمان پر مشتمل ہے۔ 

آسیا ن میں شامل ممالک کے آٹھ رہنما دسویں سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچ چکے ہیں۔ (فوٹو، ایس پی اے)

یاد رہے کہ فریقین نے جون 2009 کے دوران بحرین میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ یہی یادداشت جی سی سی اور آسیان ایسوسی ایشن کے درمیان تعلقات اور تعاون کے میثاق کا درجہ رکھتی ہے۔ 
آسیا ن میں شامل ممالک کے آٹھ رہنما دسویں سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچ چکے ہیں۔ لاؤس کے وزیراعظم اور میانمار کے فوجی حکمراں غیر حاضر ہیں۔ دو سال قبل میانمار میں فوجی حکومت برسراقتدار آئی تھی جس کے بعد سے بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوئی ہیں۔ 

شیئر: