Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کوئٹہ میں ایک بڑا سیاسی پاور شو کر پائے گی؟

15 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے بعد صوبے کا پہلا سیاسی شو کیا تھا (فائل فوٹو: اے پی پی)
یہ 15 دسمبر 2007 کا سرد دن تھا، درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کئی درجے نیچے تھا۔
کوئٹہ کے ریلوے ہاکی گراؤنڈ میں بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے بعد بلوچستان میں اپنا پہلا سیاسی شو کیا۔ سخت سردی میں پیپلز پارٹی کے لیے گراؤنڈ بھرنا بڑا چیلنج رہا۔
اب 16 سال بعد ایک بار پھر کوئٹہ کے سرد موسم میں پیپلز پارٹی سیاسی درجہ حرارت بڑھانا چاہتی ہے۔ اس بار ہاکی گراؤنڈ سے تقریباً دو گنا بڑے میدان ایوب سٹیڈیم کے فٹ بال گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
یہ جلسہ کئی حوالوں سے تاریخی ہو گا کیونکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اپنے سیاسی کیریئر کے دوران بلوچستان میں یہ پہلا بڑا پاور شو ہونے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی 56 سالہ تاریخ میں یومِ تاسیس پر کوئٹہ میں جلسہ کرنے کا یہ پہلا موقعہ ہے۔
مبصرین کے مطابق ’ایوب سٹیڈیم کے بڑے میدان کو سرد موسم میں بھرنا اور جلسے کو کامیاب بنانا پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے لیے ایک بار پھر چیلنج ثابت ہو گا۔‘
پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر چنگیز جمالی کہتے ہیں کہ ’اس تاریخی جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے لے کر نچلی سطح کے کارکن تک سب پُرجوش اور پرعزم ہیں۔‘
’جلسےکی کامیابی کے لیے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ ایوب سٹیڈیم میں کم سے کم 20 ہزار کرسیاں لگائی جائیں گی۔ صوبے کے کونے کونے سے کارکن اور عام لوگ جلسے میں شرکت کریں گے۔‘
ان کے مطابق ’کوئٹہ کا موسم سردی کی وجہ سے جلسے کے لیے ناموافق ضرور ہے لیکن عام افراد اور کارکنوں کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے ہم پُرامید ہیں کہ یہ جلسہ کامیاب ہو گا۔‘
چنگیز جمالی کا مزید کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین خورشید شاہ، ناصر حسین شاہ اور بلاول بھٹو زرداری کی ٹیم انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے کوئٹہ میں موجود ہے۔ ہم نے انتظامیہ سے جلسے کی سکیورٹی اور انتظامات کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی اور پارلیمانی قُوت میں اضافے کے لیے بلوچستان پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’یہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ایک تاریخی فیصلہ ہے کہ انہوں نے یومِ تاسیس کا جلسہ کرنے کے لیے اس بار صوبہ بلوچستان کا انتخاب کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی بلوچستان کے جیالوں کے لیے یہ اعزاز ہے کہ 56 سال میں پہلی بار کوئٹہ میں یوم تاسیس کے موقع پر جلسہ ہو گا۔‘
’جلسے سے بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ آصفہ بھٹو اور دیگر مرکزی قائدین بھی خطاب کریں گے اور یہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔‘
چنگیز جمالی کہتے ہیں کہ ’اس سیاسی پاور شو سے ہم یہ ثابت کریں گے کہ بلوچستان پیپلز پارٹی کا ہے اور آئندہ انتخابات میں ہم یہاں سے کامیابی حاصل کر کے دکھائیں گے۔‘
’ن لیگ نے اپنا اجتماع کوئٹہ کے ایک ہوٹل کے اندر رکھا اور ان کی قیادت نے صرف الیکٹ ایبلز پر انحصار کیا جبکہ عام کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ ’ان کی پارٹی قیادت کبھی ایسا نہیں کرتی۔ ہمارے قائدین ہر کسی کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو ایک بار پھر ریلیف دیں۔‘

نواز شریف کے دورہ کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)

پیپلز پارٹی نے جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں منگل کو کوئٹہ میں ایوب سٹیڈیم سے ریلی نکالی اور  شرکا نے مختلف شاہراؤں پر گشت بھی کیا۔ 
تجزیہ کار سلیم شاہد کہتے ہیں کہ ’بڑی سیاسی جماعتیں کوئٹہ میں عموماً کم ہی سیاسی سرگرمیاں کرتی ہیں۔ ن لیگ نے اپنی سرگرمیاں ایک ہوٹل تک محدود رکھیں۔ جے یو آئی سٹریٹ پاور رکھنے کے باوجود سال میں صرف ایک بار جلسہ کرتی ہے۔ سٹریٹ پاور رکھنے والی مقامی جماعتوں کے لیے بھی ایوب سٹیڈیم بھرنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے سرد موسم میں ایوب سٹیڈیم جیسے بڑے میدان کو لوگوں سے بھرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے۔
’پیپلز پارٹی نے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں نواب ثنا اللہ زہری، عبدالقادر بلوچ اور چنگیز جمالی سمیت دیگر صوبائی قیادت کے اصرار پر یوم تاسیس پر جلسہ کوئٹہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور ان رہنماؤں کے لیے اب اس جلسے کو کامیاب بنانا اہم ہو گیا ہے۔‘
سلیم شاہد کے مطابق ’پیپلز پارٹی بلوچستان میں ماضی میں بڑے جلسے کر چکی ہے۔ پارٹی کے بانی اور بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو صوبے میں بڑے اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں۔ بے نظیر بھٹو بھی یہاں جلسے کرتی رہی ہیں، تاہم بلاول بھٹو زرداری کا یہ پہلا بڑا سیاسی شو ہے۔ اس سے پہلے وہ چھوٹے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے ہیں۔‘

کوئٹہ میں جگہ پیپلز پارٹی کے بینرز لگے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بلاول بھٹو اس سے پہلے خیبر پختونخوا اور ملک کے باقی حصوں میں جلسے کر چکے ہیں۔ وہ اس جلسے کے ذریعے کوئٹہ سے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔‘
پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی صوبائی و مرکزی قیادت نے تحصیل اور اضلاع کی قیادت کے ساتھ ساتھ سابق پارلیمنٹیرینز، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو صوبے بھر سے کارکن کوئٹہ لانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔
تجزیہ کار سلیم شاہد کے مطابق ’کوئٹہ ہی نہیں ملک بھر میں ہونے والے بڑے سیاسی جلسوں میں لوگ متعلقہ شہر کے ساتھ ساتھ باقی اضلاع سے بھی لائے جاتے ہیں اس لیے یہاں بھی یہی طریقۂ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ ’بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد بننے والی صوبائی حکومت کے بعد باقی دو مدتوں میں پیپلز پارٹی کا بلوچستان میں وجود برائے نام رہا۔‘
ان کے بقول ’2018 کے اوائل میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں دلچسپی دکھائی اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں عبدالقدوس بزنجو کی مدد کی۔ آصف زرداری کے قریبی ساتھی سینیٹر عبدالقیوم سومرو خود کوئٹہ میں سرگرم رہے۔‘
’تب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی خواہش رہی کہ بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا کر حکومت بنائے، تاہم اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔‘

صوبے میں پیپلز پارٹی کے رہنما جلسہ کامیاب بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

جلال نورزئی نے مزید کہا کہ ’رواں سال کے شروع تک پیپلز پارٹی کے لیے حالات سازگار نظر آ رہے تھے۔ جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو سمیت کئی اہم شخصیات آصف زرداری کے ساتھ رابطے میں بھی رہیں۔ ارکان صوبائی اسمبلی ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، نعمت اللہ زہری، عارف محمد حسنی، سابق رکن قومی اسمبلی سردار فتح محمد حسنی، نوابزادہ جمال رئیسانی سمیت کئی اہم شخصیات اور الیکٹ ایبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پھر یکایک بازی پلٹ گئی اور ہوا کا رُخ ن لیگ کی طرف ہو گیا، سلیم کھوسہ اور سردار فتح حسنی سمیت پیپلز پارٹی میں چند ماہ قبل شامل ہونے والی کئی شخصیات رواں ماہ کوئٹہ میں نواز شریف کے دورے کے موقع پر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئیں۔‘
جلال نورزئی کہتے ہیں کہ ’استحکامِ پاکستان پارٹی کے قیام کے بعد جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔‘
’مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی قُربتوں کے بعد بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کی ن لیگ میں شمولیت آخری وار ثابت ہوا اور پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے اختلافات اور اسٹیبلشمنٹ سے خفگی کا اظہار شروع کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی ان حالات میں صوبہ بلوچستان پر توجہ دینا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی اور پارلیمانی قُوت میں اضافہ کر سکے۔‘

شیئر: