Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: پولیس کو روزانہ 10 ہزار افغانوں کو ڈی پورٹ کرنے کا ٹارگٹ

انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مہاجرین کے ساتھ مبینہ بدسلوکیوں کی مذمت کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو غیرقانوی طور پر مقیم افغان شہریوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے کا ٹارگٹ دیا جارہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ اقدام ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں خصوصا افغانوں کو نکالنے کے لیے جاری مہم کا حصہ ہے۔
حکام کے مطابق غیرقانوی طور پر مقیم غیرملکیوں میں سے بعض گرفتاری اور بے دخلی سے بچنے کے لیے  ملک کے دوردراز علاقوں میں چلے گئے ہیں۔
بلوچستان کے وزیرداخلہ جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پولیس کو ہدایات دے دی گئی ہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو گرفتار کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس حکام کو روزانہ 10 ہزار افغانوں کو ڈی پورٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
اچکزئی کا بیان طورخم اور چمن بارڈر کراسنگ پر تعینات حکام کی جانب سے ملک سے جانے والے افغانوں کی تعداد میں اچانک بڑی کمی کے اعتراف کے بعد سامنے آیا ہے۔
اکتوبر میں جب حکام نے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو 17 لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان باشندے ملک میں رہائش پذیر تھے۔ غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک رضاکارانہ واپس اپنے ملکوں کو جانے کی ڈیڈلائن دی گئی جس کے بعد کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق صرف ان غیرملکیوں کو زبردستی ملک سے نکالا جارہا ہے جو کہ غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان جو پاکستان میں رہتے ہیں ان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان میں پولیس گھر گھر جاکر غیرملکیوں کی دستاویزات کی تصدیق کر رہی ہے۔
جاری کریک ڈاؤن کے تحت پاکستانی حکام نے بلوچستان کے سرحدی ٹاؤن چمن کے رہائشیوں کو جاری کردہ خصوصی اجازت نامہ بھی ختم کر دیا ہے۔ اس خصوصی اجازت نامے کی بنیاد پر سرحدی علاقوں کے لوگ تجارت اور کاروبار کے لیے بغیر ویزے کے افغانستان جاسکتے تھے اور افغان چمن آسکتے تھے۔
حکومت کی جانب سے سرحد پار آمدورفت کے لیے ویزے کی شرط کے خلاف مقامی لوگ کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
احتجاج کرنے والے مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ سرحد پار آمدورفت کے لیے ویزے کے بجائے پرانا طریقہ کار بحال کیا جائے۔

منگل کو ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے افغان مہاجرین کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی کی ہے۔ (فوٹو: اے پی)

افغانستان میں طالبان انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں کو رہائش اور کھانا پینا فراہم کیا جا رہا ہے۔
افغان ٹی وی چینل طلوع نیوز کے مطابق پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں نے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بدسلوکی کی شکایت کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مہاجرین کے ساتھ مبینہ بدسلوکیوں کی مذمت کی ہے۔
منگل کو ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے افغان مہاجرین کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی کی ہے۔
تاہم پاکستانی حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اہلکار افغان پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کو ’ڈیپورٹیشن سینٹرز‘ میں باعزت طریقے سے رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کو افغانستان بھیجا جاتا ہے۔

شیئر: