Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ارینج میرج سے بھاگ کر امریکی فضائیہ میں شامل ہونے والی خاتون

حمنہ ظفر امریکہ میں بطور ایئر فورس ڈیفنڈر ایئر بیس پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں (فوٹو: یو ایس ایئر فورس)
19 سال کی عمر میں حمنہ ظفر جانتی تھیں کہ اگر وہ پاکستان میں اپنے کزن کے ساتھ شادی کے لیے رضامند نہیں ہوں گی تو انہیں اپنے خاندان والوں کو کھونا پڑے گا۔ لیکن وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے خواب کو نہیں چھوڑ سکتی تھیں اسی لیے انہوں نے بغاوت کر دی اور آج وہ امریکی فضائیہ میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
امریکی میگزین پیپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 23 سالہ حمنہ ظفر نے بتایا کہ ’میں نے ہمیشہ اپنے والدین کے بارے میں سوچا، اپنے خاندان کے بارے میں سوچا، اپنی بہنوں کے بارے میں سوچا لیکن اُس رات میں نے اپنے بارے میں سوچا۔‘
حمنہ جانتی تھیں کہ یہ قدم اُٹھانے سے وہ پاکستان میں اپنے خاندان سے محروم ہو جائیں گی اور ان کے والدین انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور ان سے رابطہ نہیں رکھیں گے۔
یہ وہ راستہ تھا جسے اختیار کرنے کے بارے میں میری لینڈ میں ایک تارکین وطن گھرانے میں پرورش پانے والی حمنہ ظفر نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
ایک فرمانبردار بچی اور اچھے نمبر حاصل کرنے والی حمنہ ظفر جو اب بطور ایئر فورس ڈیفنڈر ایئر بیس پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کے قریب رہیں، آٹیزم میں مبتلا اپنی بہن کی دیکھ بھال کی اور کالج کے بعد کریئر شروع کرنے کا ارادہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بچپن میں اُن کے والدین کو اُن کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ارادے پر کوئی اعتراض نہیں تھا تاہم ان کا اصرار تھا کہ وہ اُن کے منتخب کردہ شخص کی بیوی بن کر اپنا گھر بسائیں۔
حمنہ ظفر کہتی ہیں کہ ’میں صرف یہ توقع کر رہی تھی کہ میرا خاندان امریکہ کی ثقافت کو اپنا لیے گا۔ بڑے ہونے کے بعد انہوں نے ارینج میرج کا ذکر نہیں کیا۔‘
لیکن یہ سب اُس وقت بدل گیا جب وہ 2019 میں فیملی ٹرپ پر پاکستان گئیں جہاں ان پر انکشاف ہوا کہ اُن کی منگنی کی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔

حمنہ ظفر نے بتایا کہ ’میرا مکمل طور پر اپنے والدین پر انحصار تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے جانا پڑے گا۔‘ (فوٹو: یو ایس ایئر فورس)

’میں نے سوچا کہ یہ پاکستان کا ایک عام سا دورہ ہے۔ پھر میں نے زیورات اور کپڑے دیکھے۔ میں بیس سال کی ہونے والی تھی اور وہ سب یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ مجھے معلوم ہو کہ میری منگنی ہو گئی ہے اور اب میں کسی لڑکے کو اپنے لیے پسند نہ کروں۔‘
حمنہ نے بتایا کہ ’میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔‘
ان کے بقول اس دورے سے واپسی کے بعد انہوں نے اپنی والدہ سے اس معاملے پر بات کی لیکن وہ لوگ سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ’میرے والدین بہت روایتی ہیں اور کبھی بھی امریکی ثقافت کو نہیں اپنایا۔ اسی لیے وہ میری منگنی کرانے کے لیے مجھے پاکستان لے گئے تھے۔‘
حمنہ ظفر نے بتایا کہ جب ان کے والدین کو اُن کے ایئرفورس میں بھرتی ہونے کے ارادے کا علم ہوا تو وہ گھبرا گئے تھے۔ ’میرا مکمل طور پر ان پر انحصار تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے جانا پڑے گا۔‘
وہ بحریہ میں بھرتی کرنے والوں میں شامل ایک اہلکار کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں اور عارضی طور پر ایک سستے ہوٹل میں رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تھک چکی تھیں، ٹوٹ چکی تھیں اوراپنے والدین کی بات ماننے کے لیے تیار ہو چکی تھیں لیکن پھر کالج فرینڈ آسٹن نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان کے خاندان کے ساتھ رہیں۔

حمنہ نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا (فوٹو: یو ایس ایئر فورس)

حمنہ ظفر اپنی ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کرنے تک اس خاندان کے ساتھ رہیں اور پھر 2022 میں انہوں نے داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
کلاڈیا بیریرا جنہیں حمنہ ظفر اب اپنی والدہ کہتی ہیں، نے بتایا کہ ’جب ہم نے اسے ٹریننگ کے لیے ڈراپ کیا تو وہ بہت چھوٹی سی لگ رہی تھی میں رونے لگی، میرے شوہر نے کہا کہ  وہ چھوٹی ہے، لیکن مضبوط ہے۔‘
حمنہ نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھ پر فخر کریں کہ میں کون ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ دیکھیں کہ ان کی بیٹی میں کتنی صلاحیت ہے۔‘
کلاڈیا بیریرا حمنہ ظفر کے گھر والوں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ حمنہ وہی کررہی ہیں جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔ اور یہ امریکہ کی خوبصورتی ہے کہ آپ کو خود یہ انتخاب کرنا پڑے کہ آپ کس سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور آپ کس قسم کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔‘

شیئر: