Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کا دو ریاستی حل سے انکار عالمی امن کے لیے خطرناک ہو گا: اقوام متحدہ

انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ غزہ تنازع دنیا میں انتہاپسندی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے سربراہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس کے وزیراعظم کی جانب سے دو ریاستی حل کو مسترد کرنا ایک ایسے سیاسی تنازع کو طول دے گا جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہے اور اور ہر طرف انتہاپسندی بڑھانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں حماس اسرائیل جنگ کے حوالے سے اب تک کے سخت ترین الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ ’فلسطینی عوام کے اپنی خودمختار ریاست بنانے کے حق کو سب کو ماننا چاہیے اور کسی بھی فریق کی جانب سے دو ریاستی حل کو ماننے سے انکار کو سختی سے مسترد کر دینا چاہیے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کا متبادل یعنی ایک ریاستی حل اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی آزادی، حقوق اور وقار کے حقیقی احساس کے بغیر ناقابل فہم ہو گا۔
انتونیو گوتریس نے لبنان، یمن، شام، عراق اور پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ انتباہ بھی کیا کہ اس تنازع کے باعث دوسرے ممالک میں خطرات اب حقیقت بن رہے ہیں۔
انہوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ دوہرے معیار سے باہر نکلیں اور ایک ہولناک جنگ کے نقصانات پر غور کریں۔‘
نیتن یاہو کی جانب سے جنگ کے بعد کے کسی بھی منظرنامے میں فلسطینی ریاست کو مسترد کیے جانے سے اسرائیل کا قریبی اتحادی امریکہ کے ساتھ ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ جنگ کو دو ریاستی حل کی طرف لے جایا جانا چاہیے، جہاں اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے قریب امن کے ساتھ رہ سکیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ دوہرے معیار سے باہر نکلیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس حل کو دنیا بھر کے ممالک کی حمایت حاصل ہے اور منگل کو اجلاس کے موقع پر وزرا اور سفیروں نے بھی اس کو دوہرایا۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکریٹری برائے شہری سلامتی، جمہوری و انسانی حقوق عذرا  ضیا نے کونسل کو بتایا کہ ’فلسطین و اسرائیل کے درمیان تنازع کو حل کی طرف لانا امریکی سفارت کاری کا اہم جزو ہے جبکہ یہی مقصد دوسری ریاستوں کے لیے بھی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد ایک ایسا مستقبل ہے جہاں غزہ کو پھر کبھی دہشت گردی کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے اور ایک ایسا مستقبل جہاں فلسطینیوں کی اپنی ایک الگ ریاست ہو۔‘
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل سے اس مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے۔
اسی کے جواب میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کی سفارت کاری سیزفائر کی قراردادوں کو ویٹو کرنے اور پھر غزہ میں جنگ کی شدت کو کم کرنے کے درمیان گھوم رہی ہے۔‘
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ ’یہ طریقہ کار بلاشبہ فلسطینیوں کی اجتماعی سزا کے لیے اجازت نامے کا کام کرتا ہے۔‘
سیکریٹری جنرل گوتریس نے ایک بار پھر اپنی دیرینہ کال کو دوہرایا جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جسے عالمی سطح پر حمایت حاصل ہے۔

شیئر: