صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی نشست پی کے 83 سے عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون اُمیدوار ثمر ہارون بلور بھی ایک بار پھر میدان میں اُتری ہیں۔
سابق رکن صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلور نے اُردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’الیکشن کے لیے ماحول سازگار ہے اور تمام سیاسی جاعتوں کے امیدواروں کو یکساں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے امیدوار بھی ہماری طرح آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کسی نے الیکشن مہم سے نہیں روکا اور نہ پولیس ایسا کر رہی ہے تو آخر یہ کس لیول پلئینگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں؟‘
مزید پڑھیں
-
سخت سردی میں پشاور کا چڑھتا سیاسی پارہ، کانٹے کے مقابلے متوقعNode ID: 831181
عوامی نیشنل پارٹی کی امیدوار ثمر ہارون بلور کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے ساتھ سال 2018 کے انتخابات میں لاڈلوں ایسا سلوک کیا گیا۔ وہ غالباً اس بار بھی اسی قسم کے سلوک کی توقع کر رہے تھے۔‘
پرویز خٹک کو کس نے تھپکی دی؟
سابق رکن صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پرویز خٹک کو کسی نے خواب دکھایا یا پھر کسی نے تھپکی دی ہے، اس بارے میں جلد معلوم ہو جائے گا۔‘
انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ ان کو کسی نے تھپکی نہیں دی اور وہ نہ ہی کسی سے مدد کی منتظر ہیں۔
ثمر ہارون بلور نے بتایا کہ ’ہم نے نچلی سطح پر ورکرز کو متحرک کیا ہے، کنونشنز کیے ہیں اور اب گھر گھر جاکر اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔‘
تحریک انصاف کی حکومت میں کیا مشکلات تھیں؟
عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما ثمرہارون بلور نے الزام لگایا کہ ’تحریک انصاف کی حکومت میں اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ انتقامی سلوک کیا گیا اور ترقیاتی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ میرے حلقے کے ترقیاتی کاموں کے فنڈز پی ٹی آئی کے ورکرز کو ملا کرتے تھے۔‘
ثمر ہارون بلور کے مطابق ’سابق وزیر خزانہ اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما یہ چاہتے تھے کہ میں اپنی پارٹی چھوڑ کر ان کی جماعت میں شامل ہو جاؤں لیکن میرے لیے عوامی نیشنل پارٹی میرا گھر ہے۔ میرے شوہر اور سسر لال ٹوپی پہن کر شہید ہوئے اس لیے میرا یہ پارٹی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

اس بار الیکشن جیت پائیں گی؟
ثمر ہارون بلور کا کہنا تھا کہ ’سال 2018 کے ضمنی انتخابات میں لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے نہ میری ان سے ملاقات تھی۔ انہوں نے مجھے صرف ہمدردی کا ووٹ دیا مگر اس بار میرے حلقے کے لوگ مجھے پہچان چکے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ حالات جو بھی ہوں میں ان کے لیے ہی آواز اُٹھاؤں گی اور میں نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عوام ترقیاتی کاموں سے زیادہ لیڈر کا خلوص دیکھتے ہیں۔ مشکل وقت میں کھڑے رہنا ہی عوامی پذیرائی حاصل کرنے کا سبب ہے۔ میرے حلقے کے عوام نے شاید مجھ میں وہ خوبی دیکھی ہو جو ممکن ہے کسی مرد امیدوار میں نہ ہو۔‘
خاتون کے لیے جنرل نشست پر الیکشن لڑنا کتنا مشکل ہے؟
ثمر ہارون بلور نے کہا کہ ’خاتون امیدوار ہونے کی حیثیت سے مشکلات پیش آتی ہیں مگر عوام کے ساتھ مضبوط رشتہ ہو تو پھر کسی قسم کی مشکل نہیں ہوتی۔ میں نے سال 2018 میں الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقے کو اپنا گھر بنایا، کورونا لاک ڈاؤن ہو، دھماکے ہوں یا علاقے کے مسائل ہوں، میں ہمیشہ میدان میں موجود رہی اور کبھی اپنی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ امیدوار جو مہمانوں کی طرح اپنے حلقے میں آتے ہیں تو ان کے لیے الیکشن میں کامیاب ہونا آسان نہیں ہوتا۔
پی کے 83 میں کن امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے؟
پشاور کا صوبائی حلقہ پی کے 83 جو پہلے 78 ہوا کرتا تھا، اس حلقے سے 22 امیدوار مدمقابل ہیں جن میں تحریک انصاف سے مینہ خان، پیپزپارٹی سے ظاہر علی شاہ ، جماعت اسلامی سے خالد گل اور جے یو آئی سے محمد عمر خان سمیت 12 آزاد امیدوار سیاسی دنگل میں اترے ہیں۔
