Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن کی اصل کنفیوژن کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالم

کیا ن لیگ واقعی اس پوزیشن میں ہوگی کہ من چاہی بساط بچھا لے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
مسلم لیگ ن کی اصل کنفیوژن کیا ہے؟ یہ سوال جب ایک انتہائی اہم بزرگ لیگی رہنما سے کیا تو وہ گرم کشمیری چادر سمیٹتے ہوئے صوفے پر نیم دراز سے ہو کر رہ گئے۔ قدرے نستعلیقی لہجے میں گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ ’دیکھیے، سادہ اکثریت یا اتحادیوں کے ساتھ سرکار؟ اگر تو سادہ اکثریت دستیا ب ہوگئی تو پھر بڑے میاں صاحب چوتھی بار مسنند اقتدار سنبھالیں گے، بصورت دیگر چھوٹے میاں۔‘
تو پھر پنجاب کی کیا صورت ہوگی؟ وہ بولے کہ ’یہی صورتحال پنجاب میں بھی درپیش ہوگی۔ اگر مینڈیٹ توانا ہوا اور بڑے میاں وزیر اعظم بن گئے تو پھر چھوٹے میاں پنجاب کو ایک بار پھر سنبھالیں گے، اور دوسری صورت میں پھر مریم بی بی کی پنجاب کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوگی۔‘
قدرے توقف کے ساتھ وہ نہایت دھیمے میں لہجے میں استعجابیہ انداز میں بات ختم کرتے ہوئے بولے کہ ’دیکھیے، باپ بیٹی دونوں بیک وقت تو وفاق اور پنجاب میں براجمان نہیں ہوسکتے ناں۔‘
یہ گفتگو چند ہفتے پہلے کی تھی۔ البتہ جب حافظ آباد کے جلسے میں میاں صاحب نے مریم بی بی کو بطور رہنما پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر مختصر رکھی اور آخری تقریر ان کی رکھی تو بحثیت صحافی ادراک ہوا کہ بزرگ رہنما کی بات میں وزن تھا۔ یہی سلسلہ پھر ہمیں مانسہرہ میں جب دیکھنے کو ملا تو یقین ہوگیا کہ بات میں دم تھا۔
ہمارے دوست منیب فاروق نے جب شہباز شریف کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں متعدد بار یہی سوال کیا تو ان کے رد عمل نے بھی ہماری جانکاری پر مہر ثبت کر دی۔ قارئین جانتے ہیں کہ شہباز شریف کے حوالے سے خاکسار نے نومبر دسمبر میں یہ خبر بریک کی تھی کہ وہ ایک بار پھر پنجاب کے محاذ پر سرگرم ہو رہے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے پرانے معتمد ساتھیوں کے ساتھ ایک دو نشستیں برپا کیں اور پنجاب میں تیار رہنے کا کہا۔
 لیکن اچانک وہ اس محاذ سے ہٹ گئے اور پھر ہمیں ملے لیگی بزرگ رہنما جنہوں نے دل کا حال بیان کرنے کی صورت میں ہمارے سوالات کو جانکاری سے مزین کر دیا۔
یہ سب کیسے ہوگا؟ کیا ن لیگ واقعی اس پوزیشن میں ہوگی کہ من چاہی بساط بچھا لے؟ ابھی ان سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ رہے تھے کہ اسلام آباد میں برپا رات گئے کی ایک مجلس میں ایک انتہائی واقف حال شخصیت سے ملاقات ہوگئی۔ وہ نیا شوشہ لیے بیٹھے تھے۔ ہمارا مدعا تحریک انصاف اور ن لیگ کی من چاہی پوزیشن کے ممکنات تھے۔ لیکن وہ بولے کہ ایک نیا مدعا کھڑا ہوچکا ہے۔
 مدعا وزیر خزانہ کا ہے۔ اسحاق ڈار لیگی قیادت کے پسندیدہ ہیں اور رہیں گے۔ البتہ ایک نئی سوچ طاقت ور حلقوں میں جنم لی چکی ہے جس کے مطابق ڈار صاحب کو کسی طرح سینیٹ میں ذمہ داری دیتے ہوئے خزانہ کے امور ایک نئی شخصیت کو سونپے جانے کی سوچ شدت اختیار کر رہی ہے۔
مزید گھوڑے دوڑائے تو معلوم ہوا کہ آپشنز میں سنجیدگی سے جہانگیر ترین بھی اہم ہوچکے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ نہ صرف مقتدرہ بلکہ تاجر کمیونٹی اور صنعتکار بھی اس انتخاب پر بیعت کرنے کوتیار ہیں۔ ترین صاحب کے ایک انتہائی قریبی معتمد سے باتوں باتوں میں جب اس جانکاری پر چرچا ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ آپ کا اس سلسلے میں صحافتی ایکسپریشن کہیں گیم نہ خرا ب کر دے۔

نواز شریف نے دختر مریم بی بی کے حوالے سے حالیہ چند جلسوں میں نئی سیاسی پوزیشن اختیارکر لی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہم چپ سے ہو کر رہ گئے۔ جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے ایک اور نامی تجزیہ نگار انہی دنوں جب اس مدعے پر ایک محدود عشائیے میں گویا ہوئے تو ان کا ماننا تھا کہ اس بابت احسن اقبال کے نام پر بھی کہیں نہ کہیں غور ہور ہا ہے۔
بہر حال جب اس سب کو سمیٹے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھئی یہ پوزیشن موجودہ صورتحال میں بھلا کیسے ن لیگ حاصل کرسکتی ہے تو  معلوم ہوا کہ لیگی قیادت نے ایک غیرملکی کمپنی کی خدمات لیتے ہوئے ایک سے زائد بار انٹرنل سروے بھی کروا رکھے ہیں۔
ان سرویز کی معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ قیادت ان نتائج سے تاحال تک مطمئن نہیں ہوسکی۔ بقول شخصے سرویز میں نوے سے لے کر ایک سو سات تک قومی اسمبلی کی نشستیں مل سکتی ہیں جو کہ سادہ اکثریت سے کم ہیں۔ ہم گہری سوچ میں مبتلا ہو گئے کہ اگر انٹرنل سرویز میں بھی یہی پوزیشن ہے تو پھر کیا صورت ہوگی؟
 دوسری جانب جب زرداری صاحب نے اپنے پتے شو کروانا شروع کیے تو ادراک ہوا کہ موصوف کم از کم ایک یا پھر دو یعنی بلوچستان میں سرکار کے خواہاں ہیں اور اس صورت میں ہنسی خوشی اپوزیشن کا کردار بھی نبھانے کو تیار ہیں۔ کیونکہ اپوزیشن کسی تیسرے فریق کو دینے پر بھی دونوں بڑی پارٹیاں اور ان کے ہمنوا تیار نہیں۔ 
بہرحال اقتدار کی اس رسہ کشی میں آئے دن بدلتی صورتحال اور تحریک انصاف کی نت نئی پلاننگ دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید یہی وہ چند ایک وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پھر نواز شریف نے دختر مریم بی بی کے حوالے سے حالیہ چند جلسوں میں نئی سیاسی پوزیشن اختیارکر لی۔  

شیئر: