Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پولنگ کے بعد مسلم لیگ ن کی خاموشی نے نتائج کو مشکوک بنا دیا‘

جمعرات کی شام جب پولنگ کا اختتام ہوا تو پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، صدر شہباز شریف اور چیف آرگنائزر مریم نواز شریف اپنی پارٹی کے مرکزی دفتر ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچے اور وہاں پر جشنِ فتح منانے اور فاتحانہ خطاب کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔
ابھی کچھ حلقوں سے ہی ابتدائی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن کی اعلٰی قیادت نے ایک اجلاس میں مشاورت کا آغاز کر دیا۔ 
اس دوران ملک بھر سے نتائج آتے رہے اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق بیشتر حلقوں پر ن لیگ کے امیدوار پیچھے تھے۔
ن لیگ کی قیادت چند گھنٹوں بعد یہ مشاورتی اجلاس ختم کر کے مرکزی دفتر سے روانہ ہو گئی جس کے ساتھ ہی وہاں پر فاتحانہ خطاب کے لیے کی جانے والی تیاریاں ختم ہو گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر ویران ہو گیا اور اس کی زیادہ تر بتیاں بُھجا دی گئیں۔
دریں اثنا نتائج موصول ہوتے رہے اور ابتدائی طور پر آزاد امیدواروں اور دوسری جماعتوں کی برتری نظر آنا شروع ہو گئی جس کے بعد پاکستان  تحریک انصاف نے باقاعدہ جشن کا آغاز کر دیا اور پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اپنی اکثریت کا اعلان کر دیا۔
مسلم لیگ ن کی پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت منظرِعام سے مسلسل غائب رہی اور کسی بھی سطح کے رہنما کی جانب سے کوئی بیان تک جاری نہیں کیا گیا۔
رات گئے مریم اورنگزیب کا بیان آیا کہ مسلم لیگ ن بھاگے گی نہیں اور جلد اس کی حکومت بنتی نظر آئے گی، تاہم اس وقت تک بہت تاخیر ہو گئی تھی اور ملک بھر میں تاثر قائم ہو گیا تھا کہ ن لیگ ہار رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اور دوسری جماعتیں جیت رہی ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’پارٹی کا دفتر کُھلا تھا اور اس میں الیکشن مانیٹرنگ سیل کام کر رہا تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد اگرچہ کئی نشستوں پر مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل ہوئی اور اس کے امیدواروں نے کئی وہ حلقے جیتے جہاں سے وہ ابتدائی طور پر ہار رہے تھے لیکن مسلم لیگ ن کے شروع میں خاموش ہونے اور اپنے دفاتر بند کر دینے سے یہ تاثر ملنا شروع ہو گیا کہ اس کے امیدوار درحقیقت ہارے ہوئے تھے اور اب ان کو ملی بھگت سے جتوانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کی اس حکمت عملی سے جہاں دوسری جماعتوں کو موقعہ ملا کہ وہ اپنی جیت اور ن لیگ کی ہار کا تاثر دیں وہیں عوام میں یہ بیانیہ فروغ پانا شروع ہوا کہ مسلم لیگ ن دھاندلی سے جیتی ہے اور اگر واقعی اس کی جیت درست ہوتی تو یہ پہلے میدان چھوڑ کر نہ بھاگتے۔
سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق مسلم لیگ ن کا نتائج آنے کے بعد غائب ہونے سے سوال اٹھاتا ہے اور ان کے اس طرز عمل سے اب ان کی جیتی جانے والی نشستوں پر سوالیہ نشان ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’مسلم لیگ ن کی قیادت کا نتائج آنے کے بعد غائب ہونے سے سوال اٹھاتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

’مسلم لیگ ن اس وقت منظم ترین جماعت ہے، ان کے اپنے پاس پولنگ سٹیشنز سے دیے گیے فارم 45 ہوں گے اور ان کو پتا ہو گا کہ کیا نتائج آرہے ہیں؟ اگر وہ جیت رہے تھے تو وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے کہ نتائج کا اعلان کرے۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی جس کا مطلب ہے کہ انہیں پتا تھا کہ نتائج ان کے لیے اچھے نہیں ہیں۔‘
’اس وجہ سے اب آنے والے نتائج پر سوالیہ نشان ہے۔‘
’پارٹی قیادت کے مرکزی دفتر سے کہیں اور جانے سے فرق نہیں پڑتا‘
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی قیادت کے مرکزی دفتر سے کہیں اور جانے سے فرق نہیں پڑتا۔‘
’پارٹی کا دفتر کُھلا تھا اور اس میں الیکشن مانیٹرنگ سیل کام کر رہا تھا اور نتائج اکٹھے کر رہا تھا۔ ان نتائج کے مطابق ہماری پارٹی جیت رہی ہے اور ہماری اکثریت واضح ہے۔‘

شیئر: