’سپیس ایکس‘ طاقتور ترین راکٹ ’سٹار شپ‘ کی لانچ کا تیسرا تجربہ کرنے کو تیار
’سپیس ایکس‘ طاقتور ترین راکٹ ’سٹار شپ‘ کی لانچ کا تیسرا تجربہ کرنے کو تیار
جمعرات 14 مارچ 2024 9:14
سپیس ایکس کے سٹار شپ کی دو آزمائشی پروازیں ناکام ہو چکی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس دنیا کا سب سے طاقتور راکٹ ’سٹار شپ‘ لانچ کرنے جا رہی ہے جو خلابازوں کو چاند پر اتارنے کے منصوبے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وفاقی ایوی ایشن ایجنسی (ایف اے اے) کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد راکٹ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے جنوب مشرقی ٹیکساس سے لانچ کیا جائے گا۔
سپیس ایکس راکٹ لانچ کے تمام مناظر اپنی ویب سائٹ پر لائیو نشر کرے گا۔
اس سے پہلے سٹار شپ کی دو آزمائشی پروازیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ایک موقع پر اڑان بھرنے کے چند منٹوں بعد ہی راکٹ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا تھا۔
سپیس ایکس کا میگا راکٹ سٹار شپ 397 فٹ اونچا ہے جو نیو یارک میں نصب ’مجسمہ آزادی‘ سے بھی 90 فٹ لمبا ہے۔
سٹار شپ کا ’سپر ہیوی بوسٹر‘ 16 ملین پونڈ کے برابر تھرسٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سپیس ایکس کی کوشش ہے کہ خلا میں موجودگی کے دوران ہی انجن کو دوبارہ سے چلنے کے قابل بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں سٹار شپس مدار میں رہتے ہوئے ہی ایک دوسرے میں ایندھن بھرنے کا کام کر سکیں۔
سال 2018 سے سپیس ایکس کمپنی سٹار شپ کا تجرباتی ماڈل تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلا تجربہ اپریل 2023 میں ہوا تھا جو ناکامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
اس تجربے کے دوران راکٹ ایک دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا اور خلیج میکسیکو میں جا گرا۔
دوسری تجرباتی پرواز نومبر 2023 میں ہوئی تھی جس نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی تاہم یہ بھی اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد دھماکے کے ساتھ تباہ ہو گیا تھا۔
سپیس ایکس کو 17 اقدامات کی نشاندہی کے بعد وفاقی ایوی ایشن ایجنسی نے گزشتہ ماہ اس واقعے کی تحقیقات بند کر دی تھیں۔
خیال رہے کہ سپیس ایکس کے فیلکن نائن راکٹس امریکی خلائی ایجنسی (ناسا) اور کمرشل سیکٹرز کے زیر استعمال ہیں، اس کے ڈریگن کیپسول کے ذریعے خلا بازوں اور سامان کو انٹرنیشل سپیس سٹیشن پہنچایا جاتا ہے جبکہ سپیس ایکس کا سٹار لنک انٹرنیٹ سیٹ لائٹ متعدد ممالک استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی سپیس ایکس کے لیے سٹار شپ کا یہ تیسرا تجربہ کامیاب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ناسا نے 2026 میں سٹار شپ کے ذریعے خلا بازوں کو چاند پر پہنچانا ہے۔
سنہ 1972 میں ناسا کے پہلے مشن اپولو نے چاند پر لینڈ کیا تھا جس کے پچاس سال بعد ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی جا رہی ہے اور اس مشن کی تکمیل میں سٹار شپ کی کامیابی انتہائی اہم ہے۔
اس تجربے سے سپیس ایکس کو نہ صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ سٹار شپ کی کامیاب لانچ، پرواز اور لینڈنگ کر سکتا ہے بلکہ متعدد ’سٹار شپ ٹینکرز‘ کو مدار میں بھیج سکتا ہے جو چاند پر سفر کے لیے مرکزی سٹار شپ کو ایندھن فراہم کریں گے۔