Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بائیڈن انتظامیہ کا مغربی کنارے میں یہودی بستیوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا امکان

بائیڈن انتظامیہ نے فروری میں چار اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں۔ فوٹو: اے یف پی
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم اسرائیلیوں کی دو غیر قانونی بستیوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تین امریکی عہدیداروں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان بستیوں کو ’انتہا پسند‘ اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔
امریکی عہدہدار نے بتایا کہ جمعرات سے پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے جن کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے لیے لاجسٹیکل یا مالی مدد فراہم کرنے والے نہ صرف افراد بلکہ تنظیموں کو بھی امریکہ نشانہ بنا رہا ہے۔
امریکی عہدیدار نے بتایا کہ نئی پابندیاں تین اسرائیلی آباد کاروں پر عائد کی جائیں گی۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے فی الحال اس حوالے سے تصدیق نہیں کی۔
فروری میں بائیڈن انتظامیہ نے چار اسرائیلی مردوں پر پابندیاں عائد کی تھیں جن پر مغربی کنارے میں آبادکاروں سے منسلک تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
صدر بائیڈن کے اس اقدام کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں کے لیے ناپسندیدگی کے اظہار کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
فروری میں بائیدن انتظامیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل کا مغربی کنارے میں بستیوں کا پھیلاؤ بین الاقوامی قوانین کے برعکس ہے۔ 
اس بیان سے دراصل امریکہ کی طویل عرصے سے قائم پالیسی کی واپسی کا عندیہ بھی ہوتا ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ختم کر دی گئی تھی۔

اسرائیلی آباد کار یہودی بستیوں کو فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

سنہ 1967 کی جنگ سے اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے جس کو فلسطینی اپنی خودمختار ریاست کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔
اسرائیل نے اس علاقے میں یہودی بستیاں قائم کر رکھی ہیں جنہیں اکثر ممالک نے غیرقانی قرار دیا ہوا ہے۔ تاہم اسرائیل اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتا اور تاریخ کے علاوہ بائبل کا حوالہ دیتے ہوئے بھی اس سرزمین سے اپنے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل نے مغربی کنارے میں حملے بڑھا دیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 358 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جبکہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جس میں نصف سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔

شیئر: