Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے اختلافات، کون مشکل میں ہے؟

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ صورتحال صرف شہباز شریف کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری ن لیگ کے لیے پریشان کن ہوچکی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت میں کہنے کو اس وقت مسلم لیگ، ایم کیو ایم اور ق لیگ شامل ہیں لیکن اس حکمران اتحاد میں کچھ غیر سیاسی لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر مقتدر حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ اس کی تردید بھی نہیں کر رہے بلکہ پہلی بار حکمران جماعت بھی تسلیم کر رہی ہے کہ کابینہ میں ان کی موجودگی ہی حکومت کے محفوظ مستقبل کی ضامن ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں کی مداخلت سامنے آئی ہے بلکہ ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم ماضی قریب کی مثال لی جائے تو عمران خان حکومت میں قانون سازی اور دیگر معاملات کے لیے کورم پورا کرنے تک میں بھی حکومت کی مدد کی جاتی تھی۔
لیکن اب کی بار صورت حال ذرا مختلف ہے کہ باہر بیٹھ کر حکومتی معاملات چلانے کے بجائے دو اہم وزارتیں اپنے لوگوں کے حوالے کر دی گئی ہیں جو حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی حکومت بالخصوص وزیراعظم کے لیے درد سر بن گئے ہیں۔
اگر پچھلے ایک ماہ کے واقعات کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو پہلے وزیراعظم کو ای سی سی کی سربراہی اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ وزیر داخلہ کی پنجاب سے اپنی ٹیم وزارت داخلہ میں لانے کے معاملے پر اختلافات ہوئے۔
ڈی آئی جی لاہور علی ناصر رضوی کی بطور آئی جی اسلام آباد تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے باوجود پنجاب حکومت نے انھیں چارج چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی بطور سیکرٹری داخلہ تعیناتی کا تنازع، پنجاب کے سیکرٹری مواصلات و تعمیرات لیفٹیننٹ ریٹائرڈ سہیل اشرف کو پہلے پی سی بی کا چیف آپریٹنگ آفیسر اور پھر چیف کمشنر اسلام آباد تعیناتی کی وزیر داخلہ کی خواہش اور وزیر اعظم کی جانب سے ای سی ایل کمیٹی میں وزیرداخلہ کو شامل نہ کرنے کے معاملات تاحال حل طلب ہیں۔
اب تو وزیراعظم نے چینی شہریوں کی سکیورٹی کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ پہلے دن سے واضح تھا کہ محسن نقوی کس کے نمائندے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)

اس صورت حال پر کابینہ میں شامل ن لیگی وزرا تو مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں تاہم سابق وزیرداخلہ اور مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کے بیانات ان دنوں زبان زدعام ہیں۔ جن میں وہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ محسن نقوی کی مہربانی ہے کہ وہ وزیرداخلہ بننے پر راضی ہوئے ہیں وہ چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔
اپنے ایک اور بیان میں انھوں نے کہا کہ وزیرداخلہ اور وزیرخزانہ کی کابینہ میں موجودگی موجودہ حکومت کے مستقبل کی ضامن ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ محسن نقوی کے پیچھے کون ہے تو وہ کہتے ہیں یہ وہی مقناطیسی طاقت ہے جو فیصلہ واوڈا کو سندھ سے سینیٹر بنوا لیتی ہے۔
ایک یو ٹیوب چینل کو دیے گئے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں تو راںا ثناءاللہ نے ضلع گجرات میں ن لیگی امیدواروں کی شکست اور ق لیگ کی کامیابی کو بھی محسن نقوی کا کارنامہ قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی طلعت حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پہلے دن سے واضح تھا کہ محسن نقوی کس کے نمائندے ہیں ن لیگ کو بھی اس بات کا اعتراف ہے۔
’محسن نقوی سیاسی اور انتظامی طور پر اپنے آپ کو وزیراعظم کے تابع نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ اس لیے وہ اپنی طاقت کا سرچشمہ استعمال کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس وجہ سے وزیراعظم کے لیے عجیب صورت حال پیدا ہو چکی ہے کیونکہ وزارت داخلہ ایک کلیدی وزارت ہے جس کے تحت انسداد دہشت گردی، امن و امان، ای سی ایل، آدھی درجن کے قریب قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فورسز ہوتی ہیں۔
’اگر وزیر داخلہ آپ کا اپنا نہ ہو تو آپ حکومت نہیں چلا سکتے۔ تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو وفادار ترین فرد کو وزیر داخلہ لگایا جاتا رہا ہے۔ چودھری نثار کو دیکھیں یا رحمان ملک، احسن اقبال یا رانا ثنا اللہ کو دیکھ لیں وہ اپنی اپنی قیادت کے قریب ترین لوگ تھے۔ یہاں پر گنگا الٹی بہنا شروع ہوگئی ہے۔‘

راںا ثناءاللہ نے ضلع گجرات میں ن لیگی امیدواروں کی شکست اور ق لیگ کی کامیابی کو بھی محسن نقوی کا کارنامہ قرار دیا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

طلعت حسین نے کہا کہ چونکہ محسن نقوی وزارت داخلہ اور پی سی بی میں جن افسران کو لگانا چاہتے ہیں اس سے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کو بھی اختلافات ہیں۔
’اس لیے یہ صورت حال صرف شہباز شریف کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری ن لیگ کے لیے پریشان کن ہوچکی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس صورت حال میں شدید قسم کی لڑائی شروع ہو سکتی ہے جس کا کوئی حل بھی نہیں ہے کیونکہ یہ لڑائی سیاسی اختلافات پر مبنی نہیں ہے بلکہ محسن نقوی اپنے آپ کو حکومت کا ممنون احسان سمجھتے ہی نہیں وہ خود کو فوج کا نمائندہ کہتے ہیں۔
’یہ صورت حال اگرچہ خود محسن نقوی کے لیے بھی اچھی نہیں ہے کہ انھیں ایک سیاسی حکومت کے ساتھ چلنا ہے انھیں بھی تنقید کا سامنا ہوگا لیکن  بحیثیت مجموعی وزیراعظم اور ن لیگ کے لیے زیادہ مشکل ہے۔‘
دوسری جانب وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سیاسی اور انتظامی طور پر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے درمیان کیا تنازعات ہیں اس کا تو کسی کو علم نہیں ہے۔ تاہم وزیر داخلہ نے وزیراعظم سے اختلافات کے بارے میں چلنے والی خبروں کے حوالے سے کسی اجلاس میں بھی کبھی کوئی تاثر نہیں دیا بلکہ وزیراعظم آفس سے آنے والے احکامات پر سختی سے عمل در آمد کی ہدایات دیتے دکھائی دیے ہیں۔

شیئر: