Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ مینٹل ہیلتھ سینٹر میں نشے سے نجات میں مدد کے لیے روبوٹ

یہ روبوٹ، سوالات کا سائنسی طور پر درست جواب دیتا ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)
جدہ میں واقع ’ارادہ مینٹل ہیلتھ کمپلیکس‘ نے حال ہی میں  سعودی عرب میں جاری ڈیجیٹل ہیلتھ سے متعلق بنیادی تبدیلیوں کے تسلسل کے طور پر ’رصین‘ نامی روبوٹ متعارف کرایا ہے۔
رصین‘، ’ارادہ‘ کا ڈیجیٹل اسسٹنٹ ہے جو ان مریضوں کی مدد کے لیے ہے جو بیماری کے بعد بحالی کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ روبوٹ جدید مصنوعی ذہانت اور انٹرایکٹیو تعلیمی مواد کو استعمال کر کے منشیات کے بارے میں بھی آگاہی پیدا کرے گا۔
عرب نیوز کے مطابق انسان کی شکل و شباہت اور خصوصیات رکھنے والے اس روبوٹ کانام ایک عربی لفظ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ’سنجیدگی اور متانت‘ ہے۔ یہ الکوحل اور منشیات سے دور رہنے اور متوازن صحت، نفسیات، معاشرے اور روحانیت کی علامت ہے بھی ہے۔
روایتی روبوٹس کے برعکس جو عام سی خدمات سرانجام دیتے ہیں جیسے مشروبات پیش کر دینا یا ریستوانوں میں کام کرنا، ’رصین‘ انٹرایکٹیو انسان نما (روبوٹ) ہے۔
سعودی لباس میں یہ روبوٹ، سوالات کو سنتاہے، ان کا تجزیہ کرتا ہے اور سائنسی طور پر درست جواب دیتا ہے۔
اس روبوٹ کے پیچھے مصنوعی ذہانت کے حساب و شمار کا عمل اور خاص سائنسی پروگرامنگ  ہے  جس کی وجہ سے ’رصین‘، عام چیٹ بوٹ سسٹم سے کہیں بہتر صلاحیتیں رکھتا ہے اور کئی جگہوں پر استعمال ہو سکتا ہے جن میں آگاہی پیدا کرنے کی مہمات، نفسیاتی تعاون، انتظامی امور اور دیگر شامل ہیں۔

ذہنی صحت کے معاملے میں مصنوعی ذہانت کا مستقبل امید افزا ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

ارادہ‘ کے جنرل نگران ڈاکٹر خالد الکوفی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رصین‘ بین الاقوامی دنوں، فورمز اور ذہنی صحت اور نشے کی لت سے متعلقہ کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہے۔
 ’یہ سکولوں، یونیورسٹیوں، حکومتی دفاتر، واکنگ ٹریکس اور سپورٹس کلبوں میں بھی جاتا ہے جہاں پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوئے  یہ روبوٹ ذہنی صحت اور نشہ کے عادت سے متعلق لوگوں کی تشویش پر واضح اور تفصیلی جواب دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رصین‘ ، سٹاف کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں، کام کی جگہ پر لاگو پالیسیوں اور طریقِ کار اور کام کی نوعیت اور تنظیم کے ڈھانچے کے بارے میں انتظامی اور پیشہ ورانہ ترقی پر معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔

Caption

یہ روبوٹ سٹاف کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ وژن  2030 کے ذیل میں صحت کے شعبے میں جاری تبدیلیوں کے منصوبوں کے بارے میں مزید جان سکیں۔
ذہنی صحت سے متعلق مصنوعی ذہانت کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ  مصنوعی ذہانت کی وجہ سے نوکریاں جانے کا خوف، سماجی تنہائی اور اخلاقی پہلوؤں پر خدشات پائے جاتے ہیں، مصنوعی ذہانت، مینٹل ہیلتھ میں تعاون اور  نگہداشت تک رسائی بہتر بنانے کے لیے موثر مواقع پیدا کرتی ہے۔
نیشنل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ پروموشن‘ کے ماہرین مصنوعی ذہانت کے فوائد اور چیلنجز کے درمیان ایک محتاط اور اخلاقی توازن برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں تاکہ اس کا اثر مثبت ہو۔ سینٹر کے مطابق مصنوعی ذہانت میں مرض کی تشخیص اورعلاج میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے کے قومی امکانات ہیں۔
البتہ ’نیشنل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ پروموشن‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ اس طریقے سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں، مصنوعی ذہانت پر ضرورت سے زیادہ انحصار، مریض اور اس کی نگہداشت کرنے والوں کے درمیان رابطوں اور بھروسے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
نیشنل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ پروموشن‘ کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے معاملے میں مصنوعی ذہانت کا مستقبل امید افزا ہے۔ اس کے تحت چلنے والے چیٹ بوٹس اور دیگر اپلیکیشنز مسلسل تیار ہو رہی ہیں جو ذہنی صحت کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ توقع ہے کہ 2035 تک ہیلتھ کیئر میں مصنوعی ذہانت کے آلات کی تعداد میں پانچ گنا تک اضافہ ہو جائے گا۔

 

شیئر: