Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل پر ایران کے حملے خدشہ لیکن امریکہ کو اس میں دھکیل نہیں سکے گا

امریکہ نے ایران کو بتایا تھا کہ وہ دمشق حملے میں ملوث نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کو ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف حملے کا خدشہ ہے لیکن حملہ اتنا بڑا نہیں ہو گا جو واشنگٹن کو جنگ میں دھکیل سکے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ میں تنازع پھیلے اور امریکہ نے ایران کو بتایا تھا کہ وہ دمشق میں ایک اعلٰی ایرانی فوجی کمانڈر کے خلاف فضائی حملے میں ملوث نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس نے مزید کہا ہے کہ اس نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس حملے کو خطے میں مزید کشیدگی کے بہانے کے طور پر استعمال نہ کرے۔
مشتبہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر بمباری کی جس کے لیے ایران نے بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اس حملے میں ایک اعلیٰ ایرانی جنرل اور چھ دیگر ایرانی فوجی افسران مارے گئے تھے، جس سے غزہ کی جنگ سے پہلے ہی سے تناؤ کا شکار خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔
ایرانی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ تہران نے واشنگٹن کو اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے شامی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے کا اس طرح سے جواب دے گا جس کا مقصد بڑی کشیدگی سے بچنا ہے اور وہ جلد بازی سے کام نہیں لے گا، کیونکہ تہران غزہ میں جنگ بندی سمیت مطالبات پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
امریکہ ایران کی طرف سے ممکنہ جوابی حملوں کے بارے میں ہائی الرٹ پر ہے اور امریکی سفیر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
فلسطینی تنظیم حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 12 سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ پر اسرائیل کے فوجی حملے کے بعد سے مقامی وزارت صحت کے مطابق 33 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ نے غزہ کی تقریباً 23 لاکھ آبادی کو بے گھر کر دیا ہے جو ایک انسانی بحران کا باعث بنی ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں نے لبنان، یمن اور عراق سے حملے کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تہران نے اپنے اتحادیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل یا امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کیا ہے۔

شیئر: