Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور ایران کا تحمل کا مظاہرہ لیکن صدر بائیڈن کے لیے چیلنجز برقرار

امریکی صدارتی انتخابات میں ووٹرز کے لیے خارجہ پالیسی بھی اہمیت کی حامل ہوگی۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل اور ایران کے درمیان لڑائی کا خطرہ بظاہراً ٹلنے کے بعد بھی امریکی صدر جو بائیڈن کو نازک صورتحال کا سامنا ہے جو رواں سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بھی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ سال صدارتی انتخاب کے لیے مہم کے دوران جو بائیڈن نے ووٹرز کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ایسے اقدامات کریں گے جو عالمی سطح پر امریکہ کے لیے پرامن ماحول اور وقار میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
اگرچہ امریکی ووٹرز کے لیے خارجہ پالیسی کے مسائل اولین ترجیح نہیں رکھتے لیکن عوامی سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 2006 کے انتخابات کے بعد اس مرتبہ بیرونی معاملات  امریکی عوام کی سوچ پر اثرانداز ہوں گے۔
2006 کے صدارتی انتخابات میں عراق جنگ پر ووٹرز کا عدم اطمینان ایک اہم عنصر تھا جو ریپبلکن پارٹی  کے لیے ایوان نمائندگان میں 30 جبکہ سینیٹ میں 6 سیٹوں پر شکست کا سبب بنا۔
وائٹ ہاؤس کا اسرائیل اور حماس جنگ پر ردعمل اور یوکرین اسرائیل کے معاملے پر حکمت عملی سے جو بائیڈن کی عوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ انڈو پیسیفک ممالک کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی بھی صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ رہا ہے بالخصوص جب خطے میں چین معاشی اور عسکری طور پر ایک طاقتور حریف کے طور پر ابھر رہا ہے۔
عوامی سرویز سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی عوام کی خارجہ پالیسی کے معاملات پر خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ملے جلے اشارے مل رہے ہیں کہ کیا بائیڈن کی حکمت عملی ووٹرز کی سوچ کی عکاسی کر رہی ہے یا نہیں۔
رواں ماہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 47 فیصد امریکیوں کے خیال میں صدر بائیڈن نے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ 47 فیصد نے ہی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے انہی خیالات کا اظہار کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق غزہ جنگ پر حکمت عملی سے صدر بائیڈن کی عوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صدارتی منصب سنبھالنے کے پہلے چھ ماہ میں جو بائیڈن کی کارکردگی کو بے حد سراہا گیا تھا بالخصوص معاشی مسائل اور کورونا کی وبا سے نمٹنے کی پالیسی کی بنیاد پر، لیکن اگست 2021 میں امریکی فوجوں کے افغانستان سے اچانک انخلا پر صدر بائیڈن کی ریٹنگ میں کمی دیکھنے میں آئی۔
نومبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل صدر بائیڈن کو ایک مرتبہ پھر سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اور اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں معاملات پر وائٹ ہاؤس کی حکمت عملی ووٹز پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
ایک طرف ریپبلکن پارٹی اسرائیل کی بھرپور حمایت نہ کرنے پر صدر بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازو کے عناصر اس بات پر ناخوش ہیں کہ فلسطینیوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے اسرائیل پر ناکافی زور دیا گیا۔
اسرائیل کے ایران پر حملے سے مشرق وسطیٰ میں صورتحال مزید غیر یقینی کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی جنگ بندی کا معاہدہ ہوتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا۔ صدر بائیڈن کی نظر میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے یہ معاہدہ انتہائی ضروری ہے۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ ویلیم برنز بھی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں کہ قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ معاہدے کو حماس نے نہیں قبول کیا۔ انہوں نے حماس پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں شہریوں تک انسانی امداد نہ پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

امریکی انتخابات میں خارجہ پالیسی کے معاملات بھی ووٹرز کی سوچ پر اثرانداز ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے ساتھ ہی، بائیڈن انتظامیہ یہ ظاہر کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرا رہی ہے۔ امریکہ نے جمعے کو دو اداروں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں جن پر انتہا پسند اسرائیلی آباد کاروں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا الزام ہے۔
امریکی رٹگرز یونیورسٹی کے پروفیسر روس بیکر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی سے صدر بائیڈن کو عارضی طور پر فائدہ پہنچا ہے اور غزہ کے معاملے سے توجہ ہٹی ہے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں معاملات مزید پیچیدگی کی طرف ہی جائیں گے۔

شیئر: