نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ہفتہ 4 مئی 2024 16:23
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
صحافی اسامہ خلجی کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی خبر ان کے لیے ایک سرپرائز کے مترادف تھی۔ (فائل فوٹو: پکسابے)
وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے سائبر کرائم کی تحقیقات کا اختیار واپس لے کر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے نام سے ایک الگ ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
یہ ایجنسی سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب پہلے سے سائبر کرائمز کی تحقیقات کرنے کے لیے ایف آئی اے کا سائبر ونگ موجود تھا تو ایک نئی اتھارٹی کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا۔ کیا اس عمل کے دوران سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی میں نیا کیا ہو گا اور اس کے ذریعے کن مقاصد کا حصول ممکن بنایا جائے گا؟
ان سوالوں کے جواب کے لیے اُردو نیوز نے اُن ماہرین سے رائے لی ہے جو ڈیجیٹل دنیا پر صارفین کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں، اور خود ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں کام کر چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق حکومت نے اس نئی اتھارٹی کے قیام کے لیے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا۔
انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے والے گروپ ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اور صحافی اسامہ خلجی کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی خبر ان کے لیے ایک سرپرائز کے مترادف تھی۔
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پورے عمل کے دوران سٹیک ہولڈرز اور اُن ڈیجیٹل رائٹس گروپس سے مشاورت نہیں کی گئی جو سائبر کرائمز کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ اس نئی ایجنسی کے قیام کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ پہلے ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ یہ کام کر رہا تھا لیکن اسی سیٹ اپ کے ساتھ اسے نیا نام دے دیا گیا۔‘
ماہرین اسے پرانے ڈھانچے پر نئی کھال چڑھانے کے مترادف قرار دے ریے ہیں جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فضا مزید مبہم ہوسکتی ہے۔
فریحہ عزیز بھی انٹرنیٹ پر شہریوں کے حقوق سے متعلق متحرک ہیں۔ انہوں نے نئی ایجنسی کے قیام پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف آئی اے ناکام رہی اور ان پر بہت تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور حقیقی معنوں میں مسائل حل نہیں کیے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت نے اس سے سیکھا کیا؟ کن کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی؟ نئی اتھارٹی کیا کر لے گی جو ایف آئی اے نہیں کر سکی؟‘
ان کے مطابق جب ایف آئی اے کو سائبر کرائم سے متعلق کیسز کی تحقیقات کا اختیار دیا جا رہا تھا تو اُس وقت بتایا گیا کہ ان کے پاس ایسے کیسز کی تحقیقات کرنے کی مہارت ہے۔
’اس وقت یہ بیانیہ بنایا گیا کہ ایف آئی اے پولیس سے مختلف ہے اور ان کو آئی ٹی کی زیادہ سمجھ ہے اور یہ وائٹ کالر کرائمز کی تحقیقات کرتی آئی ہے اس لیے ان کو اختیارات دیے جائیں گے، لیکن اب آٹھ سال بعد کہا جا رہا ہے کہ ہمیں نئی اتھارٹی کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کسی بھی صورت سائبر کے ساتھ نہیں چل پا رہا تھا۔
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف آئی اے اور سائبر ایک ساتھ نہیں چل پا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ایس او پیز مختلف ہیں۔ ویزا فراڈ کو بھی ایف آئی اے دیکھ رہا ہے۔ ملزم کو ایک بار بلایا جائے گا نہیں آیا تو دوبارہ بلایا جائے گا لیکن سائبر کرائم کے ایس او پیز یہ ہیں کہ ایک لڑکی کو کوئی بلیک میل کر رہا ہے تو اسے فوراً گرفتار کرنا ہے۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ شکایت کنندہ درخواست درج کرتا اور وہ درخواست ویریفائی ہونے کے بعد اگلے دن بیان دیا جاتا، اس کے بعد انکوائری لگتی جس کے بعد ثبوت دیکھے جاتے۔
’ایف آئی اے میں طریقہ کار تمام کیسز کے لیے یہی تھا۔ اب اگر کسی لڑکی نے بلیک میلنگ کی شکایت کی ہے تو اس پورے عمل کے دوران اس کی عزت تار تار ہو جاتی۔‘
آصف اقبال چوہدری نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی کمزوریوں سے متعلق مزید کہا کہ ’سائبر کرائمز سے نمٹنے کے دوران انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے ساتھ کوآرڈینیشن کرنی ہوتی ہے۔ ایف آئی اے کے پاس امیگریشن، حوالہ ہنڈی اور بینکنگ سمیت کئی کام ہیں۔ ایف آئی اے والے سائبر کے مسائل پر توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ اس میں گوگل اور فیس بُک کے ساتھ کوآرڈینیٹ کرنا ہوتا ہے۔‘
’اس کے علاوہ یہاں بجٹ اور دیگر وسائل ٹھیک طریقے سے بروئے کار نہیں لائے جا رہے تھے۔ اینٹی ٹریفکینگ یونٹ کے پاس کوئی بجٹ نہیں ہے تو وہ سائبر والوں کی گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ سائبر کے افسران کمپیوٹر سائنس کے سپیشلائزڈ افسران ہیں، ہونے بھی یہ ہی چاہییں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ موبائل سے ثبوت کیسے لینے ہیں، روایتی پولیس افسروں کو یہ نہیں معلوم تھا، انہیں فرانزک کا نہیں پتہ جس کی وجہ سے سزائیں کم ہو رہی تھیں۔ وہ بین الاقوامی معیار برقرار نہیں رکھا جا رہا تھا اور افسران آپس میں الجھ جاتے تھے جس کی وجہ سے عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اس طرح تمام سپیشلائزڈ افسران سائبر کرائم کو چلائیں گے تو اس میں بڑا فرق دیکھنے کو ملے گا۔‘