ایک برس قبل جب مہندر سنگھ گل کی پاکستان میں مقیم اپنے بھائیوں سے آن لائن ملاقات ہوئی تو ان کے بھائی ’او شفیع، او شفیع‘ پکارتے رہے۔
یہ آن لائن ملاقات 77 برس بعد ممکن ہو پائی تھی۔ 77 برس قبل مہندر سنگھ گل، محمد شفیع بھٹی تھے جنہیں بٹوارے کے ہنگاموں میں اپنے خاندان سے بچھڑنے کے بعد ایک سکھ خاندان نے پالا تھا۔
تینوں بھائی کسی بھی صورت بالمشافہ ملاقات کرنا چاہتے تھے تاہم گذشتہ ماہ تک پاکستان میں مقیم مہندر سنگھ گل کے دونوں بھائی اللہ بخش اور نعمت علی اپنے بھائی کو گلے لگانے کی خواہش سینے میں لیے انتقال کر گئے۔
مزید پڑھیں
-
گوگل سرچ نے 77 سال سے بچھڑے سرحد پار بھائیوں کو کیسے ملایا؟Node ID: 882407
گذشتہ برس پاکستان سے پنجابی یوٹیوبر عباس خان لاشاری اور انڈیا سے پروفیسر ڈاکٹر نونیکا دتہ نے ان تینوں بھائیوں کی آن لائن ملاقات کروائی تھی۔
عباس لاشاری نے پاکستان میں بھائیوں کا انٹرویو ریکارڈ کر کے یوٹیوب پر اَپ لوڈ کیا جبکہ پروفیسر نونیکا دتہ نے انڈیا میں مہندر سنگھ سے ملاقات کر کے ان کی کہانی سنی۔ اس ملاقات کے بعد انہوں نے گوگل پر چند الفاظ سرچ کیے تو انہیں عباس خان لاشاری کی ویڈیو نظر آئی اور یوں 77 برسوں کی طویل جدائی کے بعد سنہ 2024 میں ان بھائیوں نے زوم سکرین پر ایک دوسرے کو دیکھا۔
مہندر سنگھ گل انڈین پنجاب کے شہر فیروز پور کے گاؤں بنڈالہ میں مقیم ہیں جبکہ ان کے دونوں بھائی ننکانہ صاحب میں زندگی بسر کر رہے تھے۔
دونوں علاقوں کے درمیان تقریباً 127 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جو پیدل چلتے ہوئے بھی ایک دن میں طے ہو سکتا ہے تاہم مہندر سنگھ گل کے لیے یہ سفر 77 برس پر محیط تو ہوا لیکن بھائیوں سے ملاقات کی خواہش اس کے باوجود ادھوری ہی رہی ۔
اس سفر میں ان کا بچپن کھو گیا۔ جوانی بکھر گئی اور آنکھوں کی روشنی آنسوؤں میں بہہ گئی۔ اس آن لائن ملاقات میں جب ننکانہ صاحب سے اللہ بخش نے موبائل سکرین کی طرف دیکھ کر کہا ’او شفیع او شفیع‘، تو اس منظر کو دیکھنے والی پروفیسر نونیکا دتہ کا ضبط جواب دے گیا۔ ڈاکٹر نونیکا دتہ بتاتی ہیں کہ ’وہ خود اس لمحے وہاں کھڑی نہ رہ سکیں۔‘

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ میں وہ منظر نہیں دیکھ سکتی تھی۔ 77 برس بعد یہ بھائی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔‘
یہ ملاقات زوم کال پر ہوئی تھی۔ اس روز انٹرنیٹ کمزور تھا اور آواز ٹوٹ ٹوٹ کر آ رہی تھی لیکن جذبات پوری شدت سے بہہ رہے تھے۔ دونوں طرف موجود خاندان رو رہے تھے، ہنس رہے تھے اور ایک دوسرے کو یقین دلا رہے تھے کہ اب جدائی ختم ہو جائے گی۔
عباس خان لاشاری بتاتے ہیں کہ اس آن لائن ملاقات کے بعد مہندر سنگھ کی طبیعت میں واضح فرق آ گیا تھا۔
’اس وقت وہ کئی دنوں سے بیمار تھے لیکن زوم میٹنگ کے اگلے ہی دن جب میں نے فون کیا تو وہ چہک چہک کر باتیں کر رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی نوجوان ہو۔ دونوں طرف عید کا سماں تھا۔‘
پاکستان میں اللہ بخش اور نعمت علی کے گھروں میں بھی خوشی کا یہی عالم تھا۔ برسوں کا دکھ اور دہائیوں کی خاموشی چند منٹ کی گفتگو میں گم ہوگئی تھی۔ سرحد کے دونوں جانب سب تینوں بھائیوں کو گلے ملتے دیکھنا چاہتے تھے۔ آن لائن ملاقات کے فوراً بعد کوششیں شروع ہو گئیں کہ مہندر سنگھ کو پاکستان لایا جائے۔

ڈاکٹر نونیکا دتہ نے خود مہندر سنگھ کے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کروایا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’اگر یہ سرحد نہ ہوتی تو میں انہیں پیدل چل کر بھائیوں سے ملا دیتی لیکن سرکاری کام میں وقت لگتا ہے۔‘
دوسری طرف عباس خان لاشاری کے مطابق اُن کی یہ کوشش تھی کہ مہندر سنگھ پاکستان آئیں کیونکہ ان کے زیادہ رشتہ دار یہاں تھے۔
’انڈیا سے پاکستان آنا نسبتاً آسان تھا۔ وہ خاص طور پر سکھ یاتریوں کے ساتھ آ سکتے تھے۔ پاسپورٹ کا پراسس شروع ہوا۔ کچھ پیچیدگیاں تھیں لیکن بالآخر پاسپورٹ بن گیا۔‘
سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وقت مخالف سمت میں چل پڑا تھا۔ انہی پیچیدگیوں میں بابا گرو نانک کے جنم دن کی سرکاری تقریبات ختم ہو چکی تھیں جبکہ سیاحتی ویزے کے لیے کاغذات کی طویل فہرست سامنے آ گئی اور پھر حالات نے ایک اور موڑ لے لیا۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی بڑھی، سرحدیں بند ہوئیں اور کرتارپور کوریڈور کو بھی بند کر دیا گیا۔
عباس لاشاری کے مطابق اس وقت مہندر سنگھ کو ننکانہ صاحب لانے کے لیے بنائے گئے تمام منصوبے ایک ایک کر کے رُک گئے۔
ڈاکٹر نونیکا دتہ بتاتی ہیں کہ ’آن لائن ملاقات کے بعد وہ دو سے تین بار مہندر سنگھ سے ملنے گئیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی وہ میرے فون کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے جیسے انتظار کر رہے ہوں کہ میں ابھی فون نکالوں گی اور پاکستان ویڈیو کال ملاؤں گی۔‘

ان کے مطابق ’گھر والے بتاتے تھے کہ آن لائن ملاقات سے پہلے مہندر سنگھ زیادہ تر بستر پر ہی رہتے تھے لیکن اس کے بعد وہ جیسے زندہ ہو گئے تھے۔ وہ انتظار کر رہے تھے کہ کسی طرح پاکستان جا سکیں یا کم از کم سرحد پر جا کر بھائیوں کو دیکھ لیں۔ پاسپورٹ تک بن چکے تھے۔‘
ان تمام کوششوں کے دوران اچانک وہ خبر آئی جس سے عباس لاشاری اور پروفیسر نونیکا دتہ کے سارے خواب ٹوٹ گئے۔ عباس خان لاشاری کو اس حوالے سے سب سے پہلے اطلاع ملی۔
انہوں نے کہا کہ ‘مجھے بابا جی اللہ بخش کے پوتے نے بتایا کہ پہلے نعمت علی کا انتقال ہوا اور پھر اللہ بخش بھی چل بسے۔ نعمت علی پہلے ہی شدید بیمار تھے اور اسی لیے سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح محمد شفیع کو پاکستان لایا جائے تاکہ وہ کم از کم نعمت علی سے مل سکیں لیکن افسوس دونوں بھائی اپنے بھائی کو گلے لگانے کی امید دل میں لیے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔‘
ڈاکٹر نونیکا دتہ کے لیے یہ خبر ناقابلِ بیان دکھ کا سبب بنی۔ وہ اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’یہ کوشش صرف مہندر سنگھ یا ان کے بھائیوں تک محدود نہیں تھی۔ یہ ایسے ہزاروں خاندانوں کی کہانی ہے جو سنہ 1947 میں اپنوں سے بچھڑ گئے ہیں۔‘

ان کے مطابق اب بھی ان کی امید ختم نہیں ہوئی۔
’مجھے لگتا ہے کہ ان بھائیوں کی روحیں کہہ رہی ہوں گی کہ محمد شفیع کو پاکستان میں ان کے بچوں اور پوتے پوتیوں سے ملایا جائے۔ البتہ اس سب کے درمیان سرحد حائل ہے لیکن امید اب بھی قائم ہے۔‘












