Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کابینہ کی عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری، حکومت کیا کرنے جا رہی ہے؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی کابینہ نے جمعے کو اپنے آٹھویں اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے خلاف جیل کے اندر سے بیان دینے، غیرملکی اخبارات میں ملک کے خلاف آرٹیکل لکھنے اور لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اجلاس میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ بنانے پر عمران خان نیازی اور دیگر کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دی گئی ہے۔‘
اس مقدمے کی نوعیت کس قسم کی ہو گی اور پنجاب حکومت یہ مقدمہ کیسے چلائے گی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمہ بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 196 کے تحت اگر کوئی شخص ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے یا لوگوں کو ابھارتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی اجازت وفاقی یا کسی بھی صوبائی کابینہ سے لینا ضروری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ایسی باوثوق اطلاعات موجود ہیں کہ اڈیالہ جیل سے کیسے ملک اور اداروں کے خلاف سازش کی جا رہی ہے اس لیے پنجاب کابینہ نے کارروائی کی باقاعدہ منظوری دی ہے۔‘
اس منظوری کے بعد اب آگے کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب محکمہ داخلہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایک کمپلینٹ بنائے گا جس میں تمام ثبوت ہوں گے اور سرکاری کمپلینٹ پر جو جو دفعات لاگو ہوں گی ان کے مطابق مقدمہ درج ہو گا اور ٹرائل ہو گا۔‘
خیال رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے عمران خان پر اس مقدمے کی منظوری ایسے وقت میں لی گئی ہے جب انہوں نے اڈیالہ جیل سے اپنے کارکنوں کو اگلی ہدایت کے لیے تیار رہنے کا کہا جس میں وہ ملک بھر میں احتجاج کی کال دیں گے۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی راہنما حماد اظہر نے روپوشی ختم کر کے باہر آ کر بیان دیا تھا کہ باقی روپوش رہنما بھی آ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنے کا منصوبہ بنا رہی تو دوسری طرف حکومت بھی اپنی تیاری میں جت گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2020 میں جب عمران خان کی حکومت تھی تو لاہور میں اپوزیشن کی ریلی روکنے کے لیے انہوں نے کریمنل پروسیجر کوڈ کے اسی سیکشن 196 کے تحت کابینہ کے ذریعے اپوزیشن پر مقدمات بنانے کی منظوری لی تھی اور وفاقی سیکریٹری داخلہ کو اپوزیشن کے خلاف غداری جیسے الزامات کی کمپلینٹ دائر کرنے کا اختیار سونپا تھا۔ تاہم اس کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی تھی۔
فوجداری قانون کے ماہر آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’تعزیرات پاکستانی کی وہ دفعات جو ریاست کے خلاف جنگ مسلط کرنے سے متعلق ہیں جن میں دفعہ 121 ملک کے خلاف سازش، دفعہ 122 ملک کے خلاف جاری کسی جنگ سے متعلق حقائق کا چھپانا، دفعہ 123 قومی پرچم کی بے حرمتی اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانا اور دفعہ 124 کسی بیرونی طاقت کے ساتھ مل کر ملک پر حملہ کرنا شامل ہیں۔ ان دفعات کے ذریعے درج مقدمات کا ٹرائل تبھی ممکن ہو گا اگر وفاقی یا صوبائی کابینہ نے ایسے مقدمات درج کرنے کی منظوری دی ہو گی۔‘

ماضی میں بھی حکومتیں سیاسی رہنماؤں پر غداری اور بغاوت کے مقدمات درج کراتی رہی ہیں۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی فیس بک

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دفعات نوآبادیاتی دور سے چلی آ رہی ہیں جب انگریز کو اپنے خلاف بغاوت کا خدشہ رہتا تھا تو اس طرح کے قوانین متعاوف کروائے گئے تھے۔ لیکن اب عدالتیں ایسے مقدمات کو سیریس نہیں لیتیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ نے تو ان دفعات کے اطلاق پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔‘
یاد رہے کہ ان دفعات کے تحت پہلے بھی سیاستدانوں اور صحافیوں پر مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔ عمران خان حکومت نے گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم جلسے کے دوران فوجی قیادت کا نام لینے پر نواز شریف کے خلاف انہی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم اس سے پہلے کابینہ کی اجازت نہیں لی گئی تھی اور وہ مقدمہ ڈسچارج ہو گیا۔ عدالتوں نے متعدد مقدمے کابینہ کی اجازت نہ ہونے اور فوجداری قانون میں درج طریقہ کار اختیار نہ کرنے پر خارج کر دیے تھے۔
ابھی تک کی دستیاب معلومات کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب کی شکایت پر اڈیالہ جیل کی حدود کے تھانے میں عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد حکومت یہ مقدمہ آگے چلائے گی۔

شیئر: