Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: غزہ میں آئی سی سی کی پراسیکیوشن جائز کیوں ہے؟

فابريزيو كاربونی نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی انسانی قانون دونوں طرف لاگو ہوتا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
رواں مہینے 20 مئی کو عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کے پراسیکیوٹر کریم خان نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر عدالت میں حماس کے سینیئر کمانڈرز، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست دائر کی۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی)، جس کے اہم کاموں میں سے ایک کسی تنازع میں تمام فریقوں سے بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کا مطالبہ ہے، ایسے معاملات میں قانونی چارہ جوئی کے حق میں ہے جہاں افراد نے مسلح تصادم کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
آئی سی آر سی کے مشرق وسطیٰ کے ریجنل ڈائریکٹر فابريزيو كاربونی نے عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں اس نکتے کی کھل کر وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر ہم عدلیہ کے معاملات پر تبصرہ نہیں کرتے، خاص کر کسی ایسے تنازع کے بارے میں جہاں ہم بہت کام کر رہے ہیں اور جہاں ہمارا سٹاف موجود ہے۔‘
’اصولی طور پر، بطور آئی سی آر سی، ظاہر ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلح تصادم کا قانون معنی رکھتا ہے اگر آپ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلاتے ہیں۔ اور اس لیے ہم ظاہر ہے کہ غزہ کے تنازع سے بالاتر ہو کر ہم استغاثہ کی حمایت کرتے ہیں۔‘
فابريزيو كاربونی کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے قومی سطح پر مقدمے کی حمایت کرتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر بین الاقوامی سطح پر مقدمہ چلانے کی۔ اب انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے اس معاملے میں ہم بیان بازی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔‘
آئی سی آر سی کے ریجنل ڈائریکٹر نے اس تفصیلی انٹرویو میں غزہ میں ان کے فلسطینی سٹاف کو جس صدمے سے دوچار ہونا پڑا، اس پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے غزہ کی جنگ کے خطے کے دوسرے تنازعات پر اثر اور آئی سی آر سی کے ان کے حل کے لیے کردار پر بھی بات کی۔
انہوں نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طاقت کے حوالے سے کتنا عدم توازن ہے، بین الاقوامی انسانی قانون دونوں طرف لاگو ہوتا ہے۔
’اس میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔ تنازعات کے فریقین، ریاستی یا غیر ریاستی مسلح گروہ کی ذمہ داریاں ہیں۔ اور جب ہم اس انسانی ذمہ داری کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ بنیادی بات ہے۔ یہ کم سے کم ہے۔‘
حماس نے گذشتہ برس سات اکتوبر کو بین الاقوامی انسانی قانون کی اس وقت خلاف ورزی کی، جب اس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے شہریوں کو ہلاک کیا اور لوگوں کو اغوا کیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کو وسیع پیمانے پر اسی الزام کا سامنا ہے۔
اسرائیل اور حماس کو جنگ کے اصولوں کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے کے لیے آئی سی آر سی کی بہترین کوششوں کے باوجود، اسے شبہ ہے کہ دونوں فریق اب بھی ان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ فابريزيو كاربونی اسے ’بقا کا بیانیہ‘ قرار دیتے ہیں۔

آئی سی سی متنازع علاقوں میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’جس چیز کا ہم اکثر ذکر نہیں کرتے وہ جذبات ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس تنازع میں تمام فریقین کے پاس بقا کا بیانیہ ہے۔‘
گذشتہ برس نومبر میں اسرائیل اور حماس نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی تھی، جس میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ ہوا تھا اور امدادی ایجنسیوں کو غزہ میں لوگوں کی مدد کے لیے ضرروی امداد پہنچانے کا موقع ملا تھا۔
تاہم لڑائی جلد ہی دوبارہ شروع ہو گئی اور مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت کرنے والوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔
اگر ایک اور جنگ بندی ہو تو کاربونی کو یقین ہے کہ آئی سی آر سی غزہ میں پھنسے فلسطینیوں اور حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی لا سکتی ہے۔
’ہم فلسطینی عوام کی زندگیوں میں فرق ڈال سکتے ہیں، کیونکہ اس جنگ بندی کے دوران آپ کی امداد میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہم بہت سے علاقوں تک محفوظ طریقے سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور مزید فلسطینی لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں متعدد شہری ہلاک ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی وقت ہم یرغمالیوں کو رہا کروا سکتے ہیں۔ ہم فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل سے رہا کرا سکتے ہیں۔ اور یہ امید کی ایک کرن کی نمائندگی کرتا ہے۔‘

شیئر: